Search Patriotic Song,Singer,Poet in This Blog.
Sunday, June 23, 2024
تاج ملتانی قومی نغموں کا ایک عہد ۔ تحریر ابصار احمد ۔ Taj Multani Patriotic Songs
ملی نغموں کا تاج وَر ۔۔ تاج ملتانی !
تحریر : ابصار احمد
22 جون 2018ء یومِ وفات
تاج ملتانی مرحوم ہماری فنِ موسیقی شخصیت ہی نہیں بلکہ تاریخِ ملٌی کا بھی ایک اہم باب تھے۔ ممکن ہے کہ بہت سے احباب اور بالخصوص میرے ہم عمر افراد ان کے نام سے واقف تک نہ ہوں لیکن "اپنی قوت اپنی جان" اور "جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی" جیسے بلند پایہ ملی نغمے سب نے ہی سن رکھے ہیں جن کے گلوکار تاج ملتانی ہی تھے ۔ 2011ء میں ملی نغموں کی جمع آوری کے ساتھ ساتھ جب ملی نغموں پر تحقیق کا ڈول ڈالا تو اس وقت یہی بات عام تھی کہ سب سے زیادہ ملی نغمے ملکہ ترنم نورجہاں نے گا رکھے ہیں جبکہ نئی نسل کے لیے یہ اعزاز رکھنے والی شخصیت جنید جمشید یا اسٹرنگز بینڈ کی تھی ۔ ایک انٹرویو میں غلام عباس سے سنا کہ سب سے زیادہ ملی نغمے گانے کا اعزاز ان کو ہی حاصل ہے جس پر ان سے رابطہ کرکے تفصیلات پوچھیں تو وہ بھی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے ۔ اس دوران ملی نغموں کی تلاش میں نکلا تو تاج ملتانی کے بے شمار ملی نغمے نظر آئے پھر ریڈیو پاکستان کی دستاویزات دیکھیں تو تاج ملتانی غلام عباس سے کہیں آگے تھے ۔۔۔! تحقیق کی اس جستجو نے پاکستان ٹیلی ویژن کا راستہ بھی دکھایا جہاں غلام عباس کے ملی نغموں کا جائزہ لیا پھر نجی اداروں کے ملی نغمات بھی کھنگالے ان سب کے باجود تاج ملتانی تعداد میں بدستور سرفہرست رہے ! حالانکہ اس وقت تاج صاحب کے بے شمار ملی نغمے میری دسترس میں نہیں تھے اور نہ ریڈیو پاکستان کراچی کے پاس اتنی بڑی تعداد تھی لیکن آہنگ کی فائلز اور ریڈیو پاکستان کی تحریری دستاویزات ثبوت کے لیے کافی تھیں اسی لیے حتمی طور پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ تاج ملتانی ہی پاکستان کے لیے یہ ملی اعزاز رکھنے والے فنکار ہیں۔ تاج صاحب سے آرٹس کونسل وغیرہ میں ملاقات رہتی تھیں لیکن اس اعزاز پر ان کی صاحبزادی ثناء علی کو فون کیا تو انھوں نے تاج صاحب سے بات کروائی جنھوں نے نہایت شفقت سے اگلے دن گھر مدعو کیا ۔ تاج ملتانی کا گھر ہماری رہائش سے کچھ ہی فاصلے پر تھا جہاں وہ نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ حالات کی ستم ظریفی تھی کہ "یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے" جیسا مقبول ملی نغمہ گانے والا فرد اب عوام کی نگاہوں بلکہ یادداشتوں سے بھی اوجھل تھا سوائے آرٹس کونسل جہاں سربراہ محمد احمد شاہ صاحب ہی ان کے قدردان تھے۔ جبکہ دنیائے موسیقی ان کو تقریباً فراموش کرچکی تھی حالانکہ تاج ملتانی کلاسیکل گائیکی میں استاد سلامت علی نزاکت علی جیسے معتبر گائیکوں کے شاگرد تھے ۔ تاج صاحب نہایت منکسر المزاج فنکار تھے جو کسی بھی شعبے کے بڑے فنکار کی پہچان ہوتی ہے ۔ اُس ملاقات کے بعد اکثر ان کا فون آجاتا اور دیر تک ملی نغموں کے حوالے سے باتیں ہوتیں اور میں ان کو ان کے گم گشتہ ملی نغمات یاد دلواتا ۔ ایک دن انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایک فلم کے لیے بھی ملی نغمہ ریکارڈ کروایا تھا لیکن وہ اب ناپید ہے کیونکہ فلم ہی ریلیز نہ ہوسکی تھی ہاں ریڈیو پر ایک عرصے تک وہ نشر ہوتا رہا جو یقیناً اب ریڈیو کے پاس بھی نہیں ہے ۔ اس کی طرز ان کو اچھی طرح یاد تھی جو انھوں نے سنائی تو دل ڈوب سا گیا کہ اتنا شاندار ملی نغمہ میرے پاس کیونکر نہیں ہے ۔ ابھی اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ کراچی کے مقامی اتوار بازار میں گراموفون ریکارڈ کی ایک ڈھیری نظر آئی۔ ان بازاروں میں جانے مقصد ہی ملی نغموں کی تلاش آوری ہوتی ہے اسی لیے اس ڈھیری میں ملی نغمے تلاش کرنے لگا ۔ اچانک میری آنکھوں نے یقین کتنا بند کردیا کہ 45 آر پی ایم کا ایک وائنل ریکارڈ جس پر فلم کا نام "بڑھے چلو" درج تھا اس میں وہی نغمہ موجود تھا ۔۔۔!! قیمت پوچھی تو ڈھیری والے نے 20 روپے بتائی وہاں شہر کے کباڑیے جو اب گراموفون کلیکٹر بھی کہلاتے ہیں اور ان ڈھیریوں سے سامان لیکر مہنگے داموں بیچتے ہیں ان کا بھی رش تھا اسی لیے میں نے ملی نغموں کے جتنے ریکارڈ نکال لیے تھے ان سب کی قیمت ادا کی کیونکہ ان کباڑیوں کے نزدیک یہ "ان ریلیز" فلم تھی تو اس کا ریکارڈ بھی مہنگا اور نایاب بکتا ہے تو ہوسکتا تھا کہ میرے ہاتھ میں وہ ریکارڈ دیکھ کر ڈھیری والے کے ذریعے وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے کیونکہ وہ لوگ تو اس کے مستقل گاہگ تھے جبکہ میں اپنے شوق کے لیے صرف ملی نغمے ہی یکجا کرتا ۔ جلدی جلدی ریکارڈ گھر لے کر آیا اور اسے اپنی ٹرن ٹیبل پر کئی بار سنا تو اس نغمے میں دو انکشافات ہوئے ۔۔۔ ایک تو یہ کہ پرویز مشرف کا نعرہ "سب سے پہلے پاکستان" اس نغمے میں جزوی طور پر شامل تھا اور دوسرا یہ کہ اس نغمے میں پاکستان میں بسنے والی سب سے زیادہ قومیتوں کا ذکر بھی شامل تھا جو ہنوز ملی نغموں میں باقی ہے ۔ نغمے کے بول اس طرح تھے :
" ہم بلوچ پنجابی سندھی بنگالی مکرانی ہیں
سب کچھ ہیں ہم دنیا والو! پہلے پاکستانی ہیں
ہم پٹھان ہزارہ میمن بوہرے آغا خانی ہیں
سب کچھ ہیں ہم دنیا والو! پہلے پاکستانی ہیں"
نغمہ سننے کے بعد تاج صاحب کو فون کیا تو انھیں بھی یقین نہیں آرہا تھا اسی لیے فون قریب کرکے ریکارڈ پلیئر پر سوئی رکھی تو فرط جذبات سے ان کی بھی واہ واہ کی صدائیں دیر تک آتی رہیں ۔ مگر کمال بات یہ تھی کہ تاج صاحب جو فون پر بات کرتے ہوئے خوشی سے انتہائی جذباتی ہو کر مسلسل دعائیں دے رہے تھے انھوں نے ایک بار بھی اس نغمے کو طلب نہیں کیا۔۔! میں یہ نغمہ سی ڈی پر منتقل کر ان کے گھر جاپہنچا اور سی ڈی نذر کی تو اس وقت ان کی حالت ایسی تھی جیسے کسی کو اپنا برسوں کھویا ہوا بچہ مل چکا ہو۔ کہنے لگے "بیٹا! تم نے مجھے دوبارہ زندہ کردیا ہے" اور کہا کہ انھیں اس بات کی را بھی امید نہیں تھی کہ یہ نغمہ ان کے سپرد کردوں گا۔۔!
تاج صاحب کے اس ملی کارنامے کو منظر عام پر لانے کے لیے اب مجھ پہ بطور محقق ذمہ داری تھی کہ تاج صاحب کا یہ قومی اعزاز قومی سطح پر منواؤں ۔ گو کہ چند ایک ملی نغموں کی وجہ سے اکثر میڈیا اور بالخصوص ریڈیو سے وابستہ افراد ان کے کارناموں سے واقف تھے لیکن یہ اعزاز بہرحال نہیں جانتے تھے۔ اس لیے سب سے پہلے ان دنوں چینل 24 سے وابستہ اپنے دوست اور معروف صحافی واجد رضا اصفہانی بھائی کو بتایا تو انھوں نے کراچی پریس کلب میں ان پر خصوصی رپورٹ بنائی جس میں مجھے بھی بطور محقق شامل کیا۔ پھر ریڈیو پاکستان اور دیگر نجی ایف ایم چینل پر مدعو مجھے کیا جاتا تو تاج صاحب اور سلیم رضا کا ذکر لازمی کرتا کہ ملی نغموں کے لیے یہ قومی اعزاز رکھنے والی شخصیات تاحال سرکاری اعزاز سے محروم ہیں ۔ اگست 2017ء میں سینٹرل پروڈکشن یونٹ کے لیے جب مسودے اور نغمے تحریر کر رہا تھا تو ریڈیو پاکستان سے ایک مختصر پروگرام یا فلر "زندہ روایات" تفویض ہوا جس میں تاج ملتانی کا نام بھی شامل تھا ۔ یہ پروگرام لکھ کر ریکارڈ کروادیا جو سینٹرل پروڈکشن کی نگراں بشریٰ نور خواجہ نے فوراً ہی ہیڈکوارٹر بھجوادیا اور اسی دن ریڈیو پر نشر بھی ہونے لگا جس میں آخری جملہ تھا "تاہم ریڈیو پاکستان کراچی کے یہ لیونگ لیجنڈ تاحال سرکاری اعزاز سے محروم ہیں جن پر توجہ دینا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے" فلر بارہا نشر ہوا جس کے بعد اگلے دن ہی وزارت سے فون آیا کہ ان کے کوائف بھیجے جائیں ۔ بشریٰ باجی نے کہا کہ اگر اس اعزاز پر اعتراض ہوا تو ؟ میں نے کہا آپ بے فکر رہیں بلکہ میرے پاس ثبوت ہیں جس کے بغیر بات کرنا مناسب نہیں اس پر ببشریٰ باجی نے کہا کہ کچھ دنوں مجھے فہرست مہیا کردینا ۔ "باجی! کچھ دن کیا مجھے ابھی کاغذ دیں ابھی لکھ دیتا ہوں " تھوڑی دیر میں فہرست بشری باجی کی میز پر تھی جس پر پہلے ہی کہہ دیا کہ یہ وہ نغمے ہیں جن کی ریکارڈنگ میرے پاس ہیں اب مزید کچھ نکل آئیں تو میں ذمہ دار نہیں" بشریٰ باجی فہرست پلٹ پلٹ کر دیکھتی رہیں اور وہ فہرست فوراً وزارت میں ای میل کروادی ۔ یہاں تک ہمارا کام تھا جو مکمل ہوا اب آگے سینٹرل پروڈکشنز میں محترم حافظ محمد نوراللہ صاحب جیسی شخصیت موجود تھیں جنھوں نے سپاس نامہ تیار کرواکے آگے پہنچوایا جہاں یہ کمیٹی تک گیا جس میں خوش قسمتی سے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ صاحب بھی موجود تھے جنھوں نے صدرِ پاکستان سے تاج ملتانی کے لیے "پرائیڈ آف پرفارمنس" منظور کروالیا اس طرح ایک حقیقی فنکار کو اس کا دیر سے سہی لیکن زندگی میں ہی مل گیا ۔ 23 مارچ 2018ء کو تاج ملتانی صاحب نے فون کرکے بتایا کہ آج وہ گورنر سندھ سے اپنا اعزاز وصول کریں گے جس کے لیے وہ کلیدی کردار میرا ہی سمجھتے ہیں اس لیے وہ اپنے صاحبزادے کی بجائے مجھے لے ساتھ جانا چاہتے ہیں جس پر ان سے معذرت کی کہ یہ آپ کا حق تھا جو آپ کو ملا ہے بلکہ یہ بہت پہلے ہی ملنا چاہیے تھا ۔ اور یہ اعزاز یقیناً آپ کے اہلِ خانہ کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ایوارڈ لینے کے بعد اگلے دن مجھے فون کرکے گھر بلوایا اور شاندار ضیافت کی اس دن تاج صاحب کو دیکھا جو کچھ ہی ماہ میں بہت کمزور ہوچکے تھے بلکہ پہچانے بھی نہ جا رہے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں خبر ملی کہ تاج صاحب علیل ہیں ۔ فون پر بھی بات مشکل سے ہونے لگی یہاں تک کہ آج کے دن جب عید الفطر کو گزرے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ تاج صاحب کی صاحبزادی ثناء باجی کی فون سے چیختی ہوئی آواز ابھری "ابصار! ابو چلے گئے۔۔۔!" بس ایک سناٹا تھا کیونکہ ملی نغموں کا ایک عہد ختم ہوچکا تھا اور میرے ذہن میں ان کی ملی تانیں گونج رہی تھیں ۔ اللہﷻ کامل۔مغفرت فرمائے ۔ آمین ثم آمین
Wednesday, May 8, 2024
زبانِ بولان میں پاکستان کی تان ۔ فیض محمد بلوچ
"پاکستان زندہ بات 🇵🇰بلوچی زبان میں صدائے پاکستان🇵🇰 "
مایہ ناز بلوچی فنکار فیض محمد بلوچ کے ملٌی نغمات پر تاریخ کا اولین مضمون
تحریر و تحقیق : ابصار احمد
" 6 مئی یومِ وفات لیجنڈ گلوکار فیض محمد بلوچ "
1976ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز سے تاجدار عادل صاحب کی پیشکش میں پروگرام " دنیائے پاکستان" سے جمیل الدین عالی مرحوم کا تحریر کردہ ملٌی نغمہ " ہم سب کا ایک اشارہ یہ پاکستان ہمارا" نشر ہوا جس میں ایک 76 سالہ بوڑھا فنکار جھوم جھوم کر یہ نغمہ گا رہا تھا اور جب اس کا آخری انترا اور مقطع
" اب فیض بلوچ سنائے
جو سن لے خوش ہوجائے
یہ الفت کا سینگھارا
یہ پاکستان ہمارا "
گاتا تو سننے والا واقعی خوش ہوجاتا ۔ یہ تھے بلوچستان اور بلوچی زبان کے مایہ ناز فنکار جناب فیض محمد بلوچ جنھوں نے کئی بلوچی لوک دھنوں کو نئے سرے سے مرتب کرکے بلوچی موسیقی کو دنیا بھر میں متعارف کرواکر خود کو بلوچستان کا لیجنڈ فنکار منوالیا تھا جس کی وجہ سے بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ دیگر قومیتوں کے افراد بھی ان کی طرزیں سن کر جھوم جھوم جاتے، لیلیٰ او لیلیٰ اور اے ناز حسنِ والا جیسے بلوچی گیت آج بھی ان کی شناخت ہیں۔ مگر یہ بات بہت کم افراد جانتے ہیں کہ فیض محمد بلوچ بلوچی زبان میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ملٌی نغمات گانے والے فنکار بھی ہیں ۔۔۔ !!
فیض محمد بلوچ 1901ء میں ایران کے علاقے قصرِکند میں شہہ محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ان کے والد ایران میں محنت مزدوری کرتے تھے، روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ مند بارڈر سے بلوچستان آگئے اور پھر یہیں کے ہوگئے۔ دس سال تک وہ مکران کے علاقے جیونی گوادر، مند اورتمپ میں مزدوری کرتے رہے۔ اس دوران فیض محمد اپنی بڑی بہن مریم کے گھر لیاری میں رہائش پذیر رہے جہاں وہ لیاری کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر دنبورا بچاکر بلوچی روایتی داستانیں سناتے جن میں جام دھرک اور میر نصیر بلوچ کا کلام اہم ہوتے ۔
فیض کے بڑے بھائی محمد حسن حانی شے مرید کی داستان گایا کرتے تھے مگر جو آواز فیض کی تھی وہ محمد حسن کی گائیکی میں نہ پائی جاتی , گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اس لیے وہ بھی گائیکی چھوڑ کر مزدوری سے وابستہ ہوگئے۔ فیض محمد بھی بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے ان کے ساتھ کیماڑی میں مزدوری کرنے جانے لگے ، دورانِ مزدوری وہ شوقیہ غزل گایا کرتے تھے جسے سن کر مزدور کام چھوڑ کر گائیکی سننے کے لیے ان کے گرد جمع ہوتے تھے۔ وہ بلوچی اور فارسی میں زھیروک کا ساز اپنے انداز سے چھیڑتے تھے ۔ فیض محمد کی گائیکی اور موسیقی کا اپنا انداز تھا جسے آج بھی اتنی ہی پذیرائی اور دلکشی حاصل ہے جتنی گزشتہ ادوار میں تھی۔ فیض محمد اپنی طرز کے واحد گلوکار تھے جن کا اندازِ گائیکی دنبورہ کے ساتھ بڑا منفرد ہوتا اور وہ ان گیتوں پر پرفارم کرکے حاضرین کو اپنا گرویدہ بنالیتے اور اسی کی بدولت انھوں نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے فرانس، روس، پولینڈ اور عرب ممالک کے عوام کو بھی جھومنے پر مجبور کردیا تھا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے ہی فیض محمد بلوچ نجی محافل میں اپنا لوہا منوا چکے تھے تاہم قیامِ پاکستان کے بعد جب 1948ء میں ریڈیو پاکستان کراچی قائم ہوا تو لیاری میں مقیم نور محمد سارنگی نواز انھیں اپنے ساتھ ریڈیو پاکستان کراچی لے آئے جہاں سندھی اور بلوچی زبان میں گیتوں کے آڈیشن لیے جا رہے تھے ۔ فیض محمد اپنے ساتھ دنبورا بھی لے گئے تھے ۔ انھوں نے جیسے ہی الاپ لگایا تو حمید نسیم اور ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان زیڈ اے بخاری نے اس ہیرے کو پہچان لیا اور انھیں فوراً منتخب کرکے اگلے دن کی بکنگ بھی دے دی مگر وہ 11 ستمبر 1948ء کا دن تھا جس دن قائد ِ اعظمؒ وفات پاگئے تھے اسی لیے 12 ستمبر 1948ء کو فیض محمد بلوچ کا پروگرام نہ ہوسکا تاہم اس کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے انھوں نے لوک گیتوں کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان میں قومی نغمات بھی گائے جن میں " جی گل زمیں جی گل زمیں" بہت مقبول ہوا جبکہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ پر زبیرانی کا تحریر کردہ نغمہ " سلامت بات قائدِ اعظمؒ" بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ دیگر زبانیں بولنے والے عوام میں بھی مقبول ہوا بلوچی زبان میں بھی اولین دور کے یادگار اور اولین ملٌی نغمے ہیں۔اس طرح فیض محمد بلوچ ملٌی نغموں کے ذریعے بلوچی میں حبِ پاکستان اور نظریہ ء پاکستان کی تبلیغ کرتے رہے ۔
1958ء میں وہ ریڈیو پاکستان کوئٹہ چلے گئے جہاں انھیں ریڈیو پاکستان کی طرف سے 200 روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا یہاں بھی انھوں نے مرید بلیدی بگٹی کے ساتھ ملٌی نغمے گائے۔
ستمبر 1965ء میں قوم پر آزمائش کا وقت آیا تو فیض محمد بلوچ نے اپنے دنبورے کو ہتھیار بنالیا اور وہ آواز کے محاذ پر بلوچی میں جنگی ترانے گانے والے پہلے گلوکار بھی بن گئے ۔ انھوں نے جنگ کے آغاز ہی میں عطاء شاد کا تحریر کردہ جنگی ترانہ " اے وطن پاکیں وطن اے سرمچارانِ وطن" گا کر جنگی ترانوں میں شہرت حاصل کی ۔ اسی جنگ میں ان کا گایا ہوا نغمہ " پاک سپاہی زندہ بات" بھی مقبول ہوا ۔ اس کے علاوہ " بہادُر سرمچار" اتنا مقبول ہوا کہ وہ دورانِ جنگ بلوچ رجمنٹ کے بلوچ سپاہیوں کی زبان پر موجود رہتا جس کے الفاظ اور طرز غیر بلوچ عوام میں بھی جذبہ ء حب الوطنی فروزاں کرتے خاص طور پر کورس کے ساتھ جب فیض بلوچ "جاں جانِ" کہتے ، اس کے علاوہ انھوں نے معروف گلوکار عید محمد کے ساتھ مل کر براہوی میں جنگی ترانہ " وِرنا سپاہی اللہ اکبر اللہ اکبر" بھی گایا ۔ ان تمام نغمات کی دھنیں روایتی بلوچی ساز کے ساتھ ساتھ بلوچی لوک دھنوں پر تھیں اس لیے غیر بلوچ عوام کو الفاظ سمجھ میں نہ آنے کے باوجود بھی وہ اپنے صوتی آہنگ کی بدولت عوام میں پسند کیے جاتے ۔انھی جنگی ترانوں کے باعث صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے خصوصی سند سے بھی نوازا ۔
جنگ کے اختتام پر 23 مارچ 1966ء کو ان کا گایا ہوا نغمہ " مبارک بات آزادی مبارک" بھی مقبول ہوا ۔ یہ پہلا بلوچی قومی نغمہ تھا جو مشرقی پاکستان کے ریڈیو اسٹیشنوں سے بھی نشر ہوا ۔ اس نغمے کے خالق جناب عطاء شاد تھے ۔
اس کے علاوہ " مئے ملک پاکیں ملک" نے بھی بلوچی قومی نغمات میں مقبولیت حاصل کی ۔
ارضِ پاک کے ہاریوں کے لیے ان کا گایا ہوا نغمہ " وشے موسمو اورانی" نے بھی قومی نغمات میں انھیں نمایاں مقام دلایا یہ قومی نغمہ بھی ریڈیو پاکستان ڈھاکا اور راج شاہی سے نشر ہوا جس پر بنگالی کسان بھی جھوم جاتے تھے اسی لیے فیض محمد بلوچ مشرقی پاکستان گئے تو ڈھاکا ریڈیو پر انھوں نے سب سے پہلے یہی نغمہ پرفارم کیا ۔
1968ء میں ان کی آواز میں نہایت سریلا نغمہ " سلامت بات پاکستان" ملک بھر میں مقبول ہوا جس کا ریکارڈ ٹرانسکرپشن سروس ریڈیو پاکستان کراچی نے تیار کیا کیونکہ وہ پہلے بھی یہ نغمہ براہِ راست گاچکے تھے لیکن وہ اس وقت محفوظ نہیں ہوسکا تھا اسی لیے ٹرانسکرپشن سروس کے نگراں سید سلیم گیلانی نے اس کی ریکارڈنگ کا خصوصی انتظام کیا تھا ۔
1970ء کی دہائی میں فیض محمد بلوچ کی آواز میں قومی نغمہ " منزل جناں منزل" بھی مقبولِ عام ہوا ۔ اس کے علاوہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو خراجِ تحسین " مئے قائد اعظمؒ زندہ و پائندہ بات" بھی اسی دور کا ایک یادگار بلوچی قومی نغمہ ہے ۔
فیض محمد بلوچ نے لیاری سے اٹھ کر نہ صرف ملک گیر بلکہ بین الاقوامی شہرت بھی حاصل کی , انھوں نے روس، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں اپنی گائیکی اور منفرد انداز کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کیا ۔ قدیم بلوچی لوک گیت " لیلیٰ او لیلیٰ" کو نئے انٹرلیوڈز سے بھی مزین کیا جو ان کی آج بھی پہچان ہے ۔
وہ کراچی میں قیام کے دوران وہ ریڈیو پاکستان کراچی کے ساتھ ساتھ حاجی ولی محمد پریس کی دکان پر مستقل ملازمت کرتے تھے ۔ اس طرح بڑا نام اور مقام ہونے کے باوجود ان کی زندگی مستقل محنت سے عبارت ہے ۔
1979ء میں صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا ۔
پاکستان کے اس نامور اور بلوچی زبان کے محبِ پاکستان گلوکار نے 6 مئی 1980 ء کو کوئٹہ میں وفات پائی ۔ ان کے صاحبزادے تاج محمد تاجل بلوچ اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ مرکز میں بطور بینجو نواز خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس وقت بلوچستان میں جو صوبائیت کا ناسور اور چند شر پسندوں کی وجہ سے لسانیت کا زہر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس میں فیض محمد بلوچ کی آواز میں " پاکستان زندہ بات" کی صدا اس زہر کا تریاق کرتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نغمات کو بلوچی سازوں کے ساتھ جدید آلات پر ری ڈو کیا جائے کیونکہ بلوچی موسیقی میں جو کشش ہے وہ ہر ایک کو بھاتی ہے ۔ اس طرح پاکستان کے نام بلوچی نغماتِ وطن کی بدولت پورا پاکستان " پاکستان زندہ بات" کے نعروں سے گونج اٹھے گا اور بلوچی زبان کی صدائے بازگشت بھی پیغامِ پاکستان پہنچاتے ہوئے ہر ایک کے دل میں جاگزیں ہوجائے گی ۔ اللہ تعالیٰ فیض محمد بلوچ کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں مقام دے ۔ آمین
( ابصار احمد )
Sunday, December 31, 2023
قائدِ اعظم کو نغماتی خراجِ تحسین۔ ابصار احمد
"قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو نغماتی خراجِ تحسین"
تحریر و تحقیق : ابصار احمد
اگر یہ کہا جائے کہ موسیقی سے آراستہ ہمارے ملٌی نغموں کا آغاز کلامِ اقبالؒ کے بعد بانی ء پاکستان قائدِ محمد علی جناحؒ پر بنائے گئے نغمات سے ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ملٌی کلامِ اقبالؒ جو بطور "قومی نغمہ" بھی گراموفون کمپنیوں نے جاری کیے اس کے بعد قائدِ اعظمؒ ہی کی شخصیت تھی جس کی بناء پر مسلمانانِ ہند کے لیے نغمہ طرازی ہوتی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے وقت گراموفون ریکارڈ اور ریڈیو کے ذریعے موسیقی اپنے عروج پر تھی اسی لیے برطانیہ نے "وار پبلسٹی" کے نام سے جنگی ترانوں کا شعبہ بھی قائم کر رکھا تھا جس میں نامی و گرامی شعراء اپنا نام واضح کیے بناء خدمات انجام دے رہے تھے۔ ماہرین نفیسات کے مطابق موسیقی اور نغموں کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں جس کا اظہار ہم اپنی زندگی میں بھی کرسکتے ہیں کہ کوئی گانا جو ہم نے عمر کے کسی حصے میں بھی سنا ہو وہ اگر سن لیں تو ہم اسی دور میں پہنچ جاتے ہیں جس کے لیے الفاظ نہیں بس احساس ہوتے ہیں پھر اگر کوئی نغمہ اپنی شاعری میں گہرائی رکھتا ہو تو وہ بہت جلد کسی بھی انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ جنگوں سے لے کر سیاسی جماعتوں اور نظریوں کی تشہیر اور ان بیانیے کے فروغ میں نغموں کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اسی لیے جب برطانوی ہند کے لیے نغمے تیار ہو رہے تھے تو 1942ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی خصوصی نغمے بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ عوام میں نظریہ ء پاکستان کی تشہیر کی جاسکے مگر آل انڈیا مسلم لیگ اس معاملے میں اتنی پاکیزہ سوچ کی حامل تھی کہ اس کی جانب سے کچھ شرائط تھیں جن میں اہم شرط ان نغموں کو گانے والے فنکاروں نے برطانوی ہند کی مدح سرائی نہ کی ہو شامل تھی اس لیے کئی نامور فنکار اس سے دور ہی ہوگئے۔ اس وقت برطانوی ہند کے ساتھ ساتھ سبھاش چندر بوس کی آزادی ء ہند فوج اور کانگریس کے ترانے بھی منظرِ عام پر آ رہے تھے جبکہ مسلمانوں میں رفیق غزنوی اور امراء ضیاء بیگم کے گائے گئے کلامِ اقبالؒ ہی بطور ملٌی نغمہ تصور کیے جاتے ہاں چند اسلامی نظمیں اور سبق آموز واقعات پر مبنی قوالیاں ضرور تھیں جو مسلم قوم میں مقبول تھیں جن کو مختلف فنکاروں نے گراموفون کمپنیوں نے ریکارڈ کروایا تھا جن میں بنگال کے شاعرِ اسلام قاضی نذرالاسلام اور مولانا الطاف حسین حالی کا کلام اہم تھے۔ مگر اب پاکستان کے لیے باضابطہ نغموں کا آغاز ہوا چاہتا تھا تو اس ضمن میں لاہور ریڈیو کے میوزک پروڈیوسر قادر فریدی نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اس منصوبے کو خود لیا اور اپنی نگرانی میں ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں میاں بشیر احمد کی قائدِ اعظمؒ کو خراجِ تحسین پیش کرتی دو نظمیں "ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ" اور "ملت ہے فوج، فوج کا سردار ہے جناحؒ" ریکارڈ کروائیں جن کو ہز ماسٹرز وائس نے جاری کیا۔ اس طرح پاکستان کے لیے باضابطہ ملٌی نغموں کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد لاہور کے ممتاز فنکار اور سائیں اختر حسین کے بڑے بھائی ماسٹر اعجاز علی نے نازش رضوی کا تحریر کردہ نغمہ "ملت کا افتخار محمد علی جناحؒ" بھی ریکارڈ کروایا جو تحریکِ پاکستان کے زمانے میں ایک اہم نغمہ تھا۔ آغا حیدر نامی پشاور کے فنکار نے "اے جناحؒ اے دیدہ ور تجھ پہ خدا کی رحمتیں" اور ماسٹر ممتاز دہلوی نے "ظلمت میں آفتاب محمد علی جناحؒ، تاروں میں ماہتاب محمد علی جناحؒ" ریکارڈ کروائے جو بانی ء پاکستان کو قیامِ پاکستان سے قبل بہترین نغماتی خراجِ تحسین تھے ۔
14 اور 15 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہوا تو اسی دن لاہور ریڈیو سے عبدالعزیز سیالکوٹی نے صحرائی گورداسپوری کا تحریر کردہ جو نغمہ پیش کیا اس میں قائدِ اعظمؒ کا ذکر ان الفاظ میں شامل تھا :
" قائد اعظم توں میں اپنی جندڑی گول گھماواں
دن دیہاڑے ملی آزادی دل وچ خوشیاں مناواں "
پشاور ریڈیو پر احمد ندیم قاسمی نے جو تین نغمے لکھے ان میں ایک نغمہ قائدِاعظمؒ پر بھی تھا جسے پشاورا خان، سجاد سرور نیازی اور ساتھیوں نے گایا۔ اس طرح قائدِ اعظمؒ محمد علی جناحؒ پر نغموں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ابتدائی دور میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ملٌی نغموں میں کلامِ اقبالؒ کے علاوہ جو متن زیادہ واضح تھے وہ قائدِ اعظمؒ کو خراجِ تحسین پر مبنی نغمے ہی تھے جس میں تمام شعراء اور فنکار اپنے اس عظیم محسن کے احسان کو یاد کرکے ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے۔
اسی دوران نسیم اختر اور حافظ عطاء محمد قوال نے فیاض ہاشمی کے تحریر کردہ دو نغمے "تو مردِ مجاہد ہے تجھے مان گئے ہم، اے قائدِ اعظمؒ" اور "نچھاور تم پہ جان و دل ہمارے قائدِ اعظم" بھی ریڈیو پاکستان لاہور سے پیش کیے جو گراموفون ڈسک پر بھی جاری ہوئے۔
پاکستان مسلم دنیا کی ایک نظریاتی مملکت کے طور پر وجود میں آیا اسی جذبے کے تحت کسی غیر ملکی زبان میں پاکستان کے لیے پہلا ملٌی نغمہ مشرقی افریقہ کے مسلمانوں نے سواحلی زبان میں "ای بابائے پاکستان" بنایا جس کی 78 کی رفتار والی گراموفون ڈسک بھی جاری ہوئی۔ یہ نغمہ قائدِ اعظمؒ کی وفات پر ان کو خراجِ تحسین تھا۔
11 ستمبر 1948ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ قوم کی کشتی پار لگا کر ابدی نیند سو گئے تو اسی دن کراچی ریڈیو سے شیر محمد اور لاہور ریڈیو سے عبدالشکور بیدل نے تنویر نقوی کا تحریر کردہ خصوصی مرثیہ " السلام اے قائدِ اعظمؒ سلام " بھی پیش کیا جبکہ ناصر جہاں نے " محمد اور علی مل کے اک نام ہوگیا" بھی پیش کی جسے ارم لکنھوی نے تحریر کیا تھا۔
25 دسمبر 1948ء کو پہلا یومِ قائدِ اعظمؒ تھا جب قائدِ اعظمؒ قوم میں نہیں تھے اس لیے اس موقع پر فیاض ہاشمی کے تحریر کردہ خصوصی نغمے ریڈیو پاکستان نے تیار کرکے قوم کو حوصلہ مندی کا پیغام دیا جن میں منور سلطانہ نے آ "اللہ اللہﷻ حوصلہ اے قائدِ اعظم ترا" لاہور ریڈیو سے 6 بار براہِ راست سنایا اور بعد میں منور سلطانہ کے علاوہ اسے ستارہ بیگم کی آواز میں گراموفون ریکارڈ پر بھی جاری کیا گیا۔ جس میں قائدِ اعظمؒ کی وفات پر مبنی ان اشعار نے جگر چیر کر رکھ دیے :
" ہم نہیں کہتے کہ بے وفائی تو نے کی
لیکن وقت سے بھی پہلے جدائی تو نے کی
عالمِ اسلام میں آج ہے ماتم ترا"
14 اگست 1949ء کو قائدِ اعظمؒ کے بغیر پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر منور سلطانہ، علی بخش ظہور، حسینہ فیاض اور ساتھیوں نے فیاض ہاشمی کا تحریر کردہ نغمہ "قائدِ اعظمؒ زندہ ہے" لاہور ریڈیو سے پورے پاکستان کو سنایا جس میں اہلِ پاکستان کی طرف سے روحِ قائد سے یہ وعدہ بھی شامل تھا :
" جنت یہ زمیں بن جائے گی
ہر سالگرہ آزادی کی یہ کہتے ہوئے اب آئے گی
قائدِ اعظمؒ زندہ ہے ہاں زندہ ہے"
کراچی ریڈیو پر احمد ندیم قاسمی کا تحریر کردہ نغمہ "بحرِ ہستی میں اسلام کی لہر تھا، قائدِ ہند کیا قائدِ دہر تھا" مختلف فنکاروں نے گایا جبکہ لاہور ریڈیو سے زینت بیگم اور حافظ محمد عطاء کی مشترکہ آوازوں میں طفیل ہشیارپوری کا تحریر کردہ نغمہ "تو نے ہم کو جذبہء ایماں عطاء کیا" 1950ء کی دہائی کی ابتداء میں ریکارڈ ہوئے۔ تاہم قائدِ اعظمؒ پر سب سے مقبول ترین ملٌی نغمہ فلم بیداری میں شامل فیاض ہاشمی مرحوم کا تحریر کردہ وہ ملٌی نغمہ ہے جسے سن کر آج بھی ہر دل میں جہاں قائدِ اعظم سے عقیدت پیدا ہوتی ہے وہاں آخری انترا سن کر آنکھیں بھی اشک بار ہوجاتی ہیں اور یہ نغمہ آج بھی مختلف فنکار گا کر اپنے قائدؒ کو خراجِ تحسین ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :
" یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظمؒ تیرا احسان ہے احسان"
کچھ عرصے سے ایک بغضِ پاکستان رکھنے والا یا بھارت سے مرعوب اور پاکستان سے لاشعوری طور نفرت کرنے والا یا پھر فیشن کے طور پر "اٹینشن سیکر" طبقہ اسے بھارتی فلمک گیت کا "چربہ" قرار دے کر اس پر "پابندی" کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ اس کا جواب فیاض ہاشمی خود دے چکے ہیں بلکہ یہ طبقہ اپنی بات منوانے کے لیے اس حد تک گرتا ہے کہ اسے ملٌی شاعری کے باوجود "ملٌی نغمہ" ماننے سے بھی انکاری ہے اور ایک فرد تو اب مجھ سے ذاتی بغض میں ہر قومی تہوار کے موقع پر اپنی فیس بک وال سیاہ کرتے ہوئے اس پر " سرکاری پابندی کا مطالبہ" کرتے ہوئے بھی چیختے دکھائی دیتے ہیں جن کے خود ساختہ "سند یافتہ محقق" بھی آپ کو اول جلول باتوں کے ساتھ دکھائی دیں گے۔ ان کے سرخیل اور پی ٹی وی پر پاکستانی موسیقی پر پروگرام کرنے کے باوجود بھی "بھارت ہمدرد محقق" کراچی سے اس سال سفرِ آخرت پر روانہ ہوچکے ہیں جبکہ لاہور میں بیٹھے صاحب اور ان کے ہم نوا سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر جب بھی یہ نغمہ سنتے یا دیکھتے ہیں تو تلملاتے ہیں مگر الحمدللہ صد الحمدللہ 1957ء سے لیکر آج تک قائدِ اعظمؒ پر یہ اثر انگیز نغمہ ہر اسکول اور تقاریب میں نشر ہوکر فیاض ہاشمی کے الفاظ میں قائدِ اعظمؒ کا احسان پوری قوم کو یاد دلا رہا ہے ۔۔!
1964ء میں ریڈیو پاکستان کی ٹرانسکرپشن سروس جو اب سینٹرل پروڈکشنز کہلاتی ہے ریڈیو پاکستان کا مضبوط شعبہ بن چکی تھی اس نے جہاں کئی ملٌی نغمےبریکارڈ کیے وہاں بانی ء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پر بھی دس نئے نغمات تیار کیے جن میں حمایت علی شاعر کا تحریر کردہ نغمہ "اے قائدِ اعظمؒ تو زندہ رہے گا پائندہ رہے گا" ، ترانہ ء پاکستان کے خالق ابوالاثر حفیظؔ جالندھری کا "کشتی میں تھا وہ عزم کا دریا لیے ہوئے" اور اطہر نفیس کا "اپنا وہ میرِ کارواں" بے حد مقبول ہوئے جنھیں کورس میں تاج ملتانی، کوکب جہاں، زوار حسین اور خورشید بیگم نے پنڈت غلام قادر خاں اور استاد نتھو خاں کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا۔
ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران جب 11 ستمبر کا دن آیا تو اس دن ناصر کاظمی نے "آج تیری یادوں کا دن ہے" جیسا نغمہ لکھا جو بہت عرصے بعد مجاہد حسین کی موسیقی میں انور رفیع اور ساتھیوں نے سینٹرل پروڈکشن یونٹ لاہور جبکہ کراچی پر افشاں احمد نے نیاز احمد کی موسیقی میں گایا۔ افشاں احمد کی والدہ اسماء احمد کی آواز میں "میرے محبوب قائدؒ میرے محترم" بھی ریڈیو پاکستان کراچی کا ایک مقبول نغمہ ء قائد اعظمؒ ہے جو 1976ء کو قائدِ اعظمؒ کے صد سالہ جشن کے موقع پر ریکارڈ کیا گیا۔ جبکہ 1984ء میں ساقی فاروقی کا تحریر کردہ نغمہ "اک کرن مسکراتی ہوئی اک کرن جو دریچے سے نیچے اتر آئی تھی" ناہید اختر اور ساتھیوں نے استاد نذر حسین کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا۔
قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پر ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن نے بھی یادگار نغمات تیار کیے جن میں سجاد علی، بینجمن سسٹرز اور ساتھیوں کی آوازوں میں نثار بزمی کی موسیقی سے آراستہ محشر بدایونی کا تحریر کردہ نغمہ "اے روحِ قائدؒ آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں" آج بھی روزِ اول کی طرح مقبول ہے جو 1985ء کو پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز نے پیش کیا۔ قائد اعظمؒ کے صد سالہ جشن کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز نے تاج دار عادل کی پیشکش میں جمیل الدین عالیؔ مرحوم کا تحریر کردہ نغمہ "سننے والو! یاد کرو قائدِ اعظمؒ کی باتیں" محمد افراہیم اور ساتھیوں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا تو وہ اس سال سرکاری تقاریب کا نغمہ قرار پایا جس میں قائدؒ کے اقوال کو منظوم کیا گیا تھا ۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے مایہ ناز پروڈیوسر اور سابق جنرل منیجر اطہر وقار عظیم اپنی کتاب "ہم بھی وہاں موجود تھے" میں لکھتے ہیں کہ معروف شاعر کلیم عثمانی نے ایک دن انھیں فون کرکے بتایا کہ انھوں نے ایک ایسا نغمہ لکھا ہے جو قائدِ اعظمؒ کی طرف سے قوم کے نام کے ایک تمثیلی پیغام ہے کہ اگر قائدِ اعظمؒ زندہ ہوتے تو وہ قوم سے کیا فرماتے۔ اس کے لیے انھوں نے بجائے اپنے خیالات استعمال کرنے کے اقوالِِ قائدِ اعظمؒ سے ہی مدد لی ہے۔ کلیم عثمانی نے کہا کہ اس کی موسیقی نثار بزمی ہی ترتیب دیں گے اور اگر شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں اسے گائیں تو کیا ہی بات ہوگی۔ اطہر وقار عظیم نے نثار بزمی سے موسیقی مرتب کرواکر مہدی حسن خاں سے یہ نغمہ ریکارڈ کروایا تو اس طرح 23 مارچ 1978ء کو "یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے" جیسا نغمہ معرضِ وجود میں آیا۔۔!!
1985ء میں خلیل احمد کی موسیقی میں قائدِ اعظمؒ محمد علی جناحؒ پر 23 مارچ 1940ء کو میاں بشیر احمد کا پیش کیا گیا نغمہ "ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ" مسعود رانا کی آواز میں نشر کیا گیا تو اس نغمے نے اس کی تمام سابقہ طرزیں فرموش کروادیں ورنہ یہ نغمہ کئی فنکار مختلف طرزوں کے ساتھ گاچکے تھے مگر اب اس کی یہی طرز مستند مانی جاتی ہے۔ کچھ سال قبل پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے یوسف صلاح الدین کی موسیقی میں اسے راحت فتح علی خاں نے بھی ریکارڈ کروایا تھا جو اپنی موسیقی کے اعتبار سے ایک اچھا ملٌی شاہکار قرار پایا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز نے 2005ء میں تاج دار عادل کی پیشکش میں پروگرام "ملت کا پاسباں" پیش کیا جس میں مہناز بیگم، عارف انصاری، شبانہ کوثر و شازیہ کوثر ، عبدالوہاب خان اور سجاد یوسف نے شاندار نغمات پیش کیے جبکہ 2007ء سے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز کے موجودہ جنرل مینیجر امجد حسین شاہ تقریباً ہر سال یومِ قائدِ اعظمؒ پر خصوصی میوزیکل پروگرام پیش کر رہے ہیں جن میں قائدِ اعظمؒ پر مبنی ملٌی نغمات شامل ہوتے ہیں۔
اردو زبان کے علاوہ صوبائی اور علاقائی زبانوں میں بھی قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پر نڑی تعداد میں ملٌی نغمات ریکارڈ ہوئے جن میں سندھی زبان میں مخدوم طالب المولیٰ کا تحریر کردہ "السلام اے قائدِ اعظمؒ وطن جا پاسباں" اور شمشیر الحیدری کا لکھا ہوا "سلام اے قائدِ اعظمؒ" ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے ماسٹر محمد ابراہیم، روبیمہ قریشی، استاد محمد جمن اور ساتھیوں کی آوازوں میں 1976ء میں ریکارڈ کیے۔ بلوچی زبان میں عطاء شاد کے تحریر کردہ نغمات فیض محمد بلوچ اور مرید بلیدی نے گائے اپشتو میں سلیم لاجورد، سمندر خان سمندر اور عبدالرحمٰن مجذوب جیسے شعراء نے لکھا جنھیں گانے والوں میں سبز علی، ہدایت اللہ، کشور سلطان اور گلنار بیگم کے نام اہم ہیں۔ معروف پشتو گلوکارہ وغمہ نے بھی 2007ء میں قائدِ اعظمؒ پر خصوصی نغمے ریڈیو پاکستان پشاور پر ریکارڈ کروائے جو حال ہی میں انتقال فرمانے والے ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر لائق زادہ لائق نے تحریر کیے تھے۔ کچھ برس قبل معروف پشتو فنکارہ نازیہ اقبال کی آواز میں "اے قائدِ اعظمؒ تیرا حسان ہے احسان" کا پشتو سازینوں کے ساتھ اردو طرز میں پشتو ترجمہ اے وی ٹی خیبر نے تیار کیا ہے جو ہر سال 25 دسمبر کو اے وی ٹی کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی خیبر پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پنجابی زبان میں اسمعٰیل متوالا، ڈاکٹر رشید انور، صحرائی گوراسپوری اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم جیسے شعراء نے قائدِ اعظمؒ کے حضور نذرانے تحریر کیے جبکہ جنوبی پنجاب کی زبان سرائیکی میں بابائے سرائیکی عبدالحق مہر، عبداللطیف بھٹی، حبیب فائق جیسے شاعروں نے ملتان اور بہاولپور ریڈیو کے لیے نغماتِ قائدِ اعظمؒ لکھے جنھیں گانے والوں میں ثریا ملتانیکر، سلیم گردیزی، جمیل پروانہ نصیر مستانہ، بیگم نسیم اختر، شمشاد بانو، سجاد رسول اور اے ڈی ساغر جیسے فنکار شامل ہیں۔
مشرقی پاکستان میں بھی قائدِ اعظمؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے بیش بہا نغمے تیار ہوئے جن میں کوی جسیم الدین کا تحریر کردہ نغمہ عبدالعلیم اور ساتھیوں کی آوازوں میں "قائدِ اعظمؒ امار مہان نیتا" اور کوی عبدالوہاب الکمال کا لکھا ہوا نغمہ " امار بندھو قائدِ اعظمؒ" جسے دل آراء ہاشم اور ساتھیوں نے گایا بے حد مقبول تھے جبکہ عباس الدین احمد نے بھی بنگلہ زبان میں قائدِ اعظمؒ کو مسیح العالم کا لکھا ہوا نغمہ گا کر خراجِ تحسین پیش کیا۔
بانیء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پر گائے گئے ملٌْی نغموں کا یہ صرف سرسری تعارف تھا جس میں اس موضوع پر کئی اہم ملٌی نغمات کا ذکر نہیں ہوسکا۔ اس موضوع پر میری کتاب "ْہر تان پاکستان" میں تفصیلات مل جائیں گی جبکہ نغماتِ قائدِ اعظمؒ پر مکمل کتاب بھی مکمل کرچکا ہوں جو ان شاء اللہ جلد زیورِ طباعت سے آراستہ ہوجائے گی۔ اس کتاب میں قائدِ اعظمؒ پر موسیقی میں بنائے گئے تمام نغموں کی نہ صرف تفصیلات شامل ہیں بلکہ نغموں کا مکمل متن بھی درج ہے۔ ان شاء اللہ یہ کتاب ملٌی نغموں کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگی۔
Sunday, July 16, 2023
Tuesday, July 11, 2023
Very Rare Milli Naghmay /Patriotic Songs by Humaira Channa & Others
Rare Milli Naghmay by Humaira Channa - Pyare Watan Laye Hum Jan o Dil Tere Liye & Others
Pyare Watan Laye Hum Jaan o Dil Tere liye
Jab bhi Kabhi Chahe ga Tu Tujh pe Fida ho jain ge
نایاب ملی نغمے ۔ حمیرا چنا
پیارے وطن لائے ہم جان و دل تیرے لیے
سانسوں میں سنگیت کے پھولوں کی مہکار ہے
زمیں اپنی گلستاں اپنا
آرکائیو : ابصار احمد
Archive : Absar Ahmed
Pak Patriotic Library . Pak Milli Naghmay Channel
Sunday, July 9, 2023
Wednesday, June 7, 2023
ہر تان پاکستان Har Taan Pakistan. Book
ملٌی نغموں کے حوالے سے مستند و معروف محقق اور پاکستانی ملٌی نغموں کے واحد آرکائیوسٹ ابصار احمد کی کتاب" یہ نغمے پاکستان کے " کی کامیابی کے بعد اب دوسری کتاب " *ہر تان پاکستان* " بہت جلد زیورِ طباعت سے آراستہ ہورہی ہے جس میں پاکستانی ملی نغموں کا صرف اشاریہ ہی نہیں مکمل تاریخ درج ہے جو نہ صرف حوالہ جاتی بلکہ عام قاری کے مطالعے کے لیے بھی دلچسپی کا سامان ہوگی ۔ ابواب کی تقسیم وہی ہے جو گزشتہ کتاب میں تھی لیکن اب ہر باب کے آغاز میں تفصیلی تاریخ اور ہر نشری ادارے کے کردار اور موضوعاتی نغموں کے ساتھ ساتھ فنکاروں کے تعارفی مضامین بھی ہیں بلکہ کچھ تاریخی مگر ناپید ملی نغموں کی مکمل شاعری بھی موجود ہے۔ پہلے کی طرح منفرد اور مزید دلچسپ معلومات بھی کتاب کا حصہ ہیں جیسا کہ پاکستان کا پہلا اقلیتی فنکار، قومی نغموں کی پہلی ہندو فنکارہ، قوال اور ملی نغموں کی تال، سوز خواں اور پاکستان کی تان، پاکستان کا نیم منظور شدہ قومی ترانہ وغیرہ ۔ نیز ہر باب کے اختتام پر اس عہد میں متعارف ہونے والے مقبول فنکاروں کے اولین ملی نغمے بھی شامل ہیں
"*ہر تان پاکستان " میں شامل مضامین میں دلچسپی بڑھانے کے لیے انھیں مختلف موضاعاتی سرخیوں میں بھی تقسیم کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کی ایک اور خاص بات فنکاروں کی نایاب بلکہ ناپید تصاویر بھی ہیں جیسے شہنشاہ غزل مہدی حسن "خطہ ء لاہور" ریکارڈ کرواتے ہوئے، عنایت حسین بھٹی اپنا پہلا ترانہ گاتے ہوئے ۔ پھر وہ گلوکار، شاعر و موسیقار جن کے صرف نام ہی سن رکھے ہیں ان کی تصاویر خصوصی طور پر شامل کی گئی ہیں ۔ "ہرتان پاکستان" کی ایک اور خاص بات صوبائی اور علاقائی زبانوں میں ملی نغموں کے علاوہ مشرقی پاکستان کے بنگالی زبان میں ملی نغمات اور وہاں کے فنکاروں کا تعارف اور نایاب و ناپید تصاویر بھی اس میں شامل ہیں ۔ان تمام موضوعات اور متن کی وجہ سے کتاب کا حجم تین گنا زیادہ ہوگیا ہے جو 550 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے " ہر تان پاکستان " صرف تاریخِ ملٌی نغمات ہی نہیں بلکہ پاکستانی ملٌی نغموں کا انسائیکلوپیڈیا بن چکی ہے ۔ دنیا کے کسی بھی ملک نے اپنے وطنی نغموں کا مکمل اشاریہ تک نہیں لکھا۔ یہ اعزاز " یہ نغمے پاکستان کے " کی بدولت صرف پاکستان کے نام ہے اور اب پاکستان ہی وہ ملک ہوگا جس کے ملی نغموں کی مکمل تاریخ بھی تحریر ہوجائے گی ۔
موجودہ حالات میں کاغذ کی بڑھتی ہوئہ قیمت کے پیشِ نظر کتاب محدود تعداد میں شائع کروائی جا رہی ہے جس کے حصول کے لیے فضلی سنز کراچی سے رابطہ کریں ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)