مسرور انور اور قومی نغمات
یکم اپریل 1996: یومِ وفات جناب مسرور انورؔ - پاکستان کے معروف قومی شاعر
تحریر : ابصار احمد
مسرور انور صاحب جنہوں نے پاکستانی فلمی صنعت میں بے شمار اور لافانی گیت لکھے ہیں لیکن اُن کی حقیقی شناخت قومی نغمات ہی ہیں جو انہوں نے وطنِ عزیز کی محبت میں تحریر کیے ۔ جنگِ ستمبر میں " اپنی جاں نذر کروں " جیسا نغمہ بلیک آؤٹ میں تحریر کیا جسے جناب سہیل رعنا کی دھُن پر مہدی حسن خاں صاحب نے گایا تھا . اس کے بعد ترانہ" یہ دس کروڑ انساں ملّت کے ہیں نگہباں" صدرِ مملکت کی چھ ستمبر کی تقریر کا تاثر تھا اس نغمے کو تاج ملتانی اور ساتھیوں نے ریکارڈ کروایا ۔ دورانِ جنگ مسرور انور صاحب نے کراچی ریڈیو کے لیے خود کو وقف کردیا تھا جہاں اُن دنوں وہ ریڈیو پاکستان کمرشل سروس سے بھی وابستہ تھے اور ساتھ ساتھ فلمی دنیا میں بھی انُ کے وصل و ہجر کے الفاظ دلوں میں گھر کرلیتے لیکن اب تمام قلمی جولانیاں وطنِ پاک کے لیے تھیں، لاہور کے لیے انہوں نے "ارضِ لاہور تیری گود کے پالوں کو سلام" جیسا نغمہ بھی تحریر کیا جواَب نایاب ترین ہوچکا ہے . پروڈیوسر اور موسیقار جناب رفیق غزنوی کی صاحبزادی اور اداکارہ سلمیٰ آغا کی والدہ زرینہ آغا جو میوزک انڈسٹری چھوڑنے کے باوجود صرف ملّی ترانوں ہی کی تسجیل کے لیے ریڈیو پاکستان آئی تھیں انہوں نے بھی مسرور انور صاحب کا تحریر کردہ ایک ملّی ترانہ " میرے نغموں کی زندگی تُو ہے ۔۔۔۔ اے مجاہد میری سرخوشی تُو ہے" دورانِ جنگ ریکارڈ کروایا ۔ جنگ کا اختتام ہوتے ہی مہدی حسن اور خورشید بیگم نے اُن کا تحریر کردہ نغمہ " تو نگہبانِ چمن ہے تجھے سب مان گئے " گایا جو صدرِ مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کی شان میں تھا ، مسرور صاحب کا قلم حالتِ امن اور جنگِ دسمبر 1971 میں بھی دشمن پر شعلے اگلتا ہے ۔ انہوں نے کراچی ریڈیو کے لیے بیش بہا ترانے لکھے ساتھ ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن پر اُن کا نغمہ " وطن کی مٹی گواہ رہنا " جسے شہناز بیگم نے جناب سہیل رعنا کی موسیقی میں گایا تھا بے حد مقبول ہوا اسی طرح نذیر بیگم کی آواز میں "پاک وطن کا شیر سپاہی" نے بھی مقبولیت حاصل کی ۔ کہتے ہیں کہ جب سقوطِ ڈھاکا ہوا تو اُس دن بھی پی ٹی وی اور ریڈیو سے "وطن کی مٹی گواہ رہنا" نشر ہورہا تھا جسے سُن کر ہر فرد اشکبار ہوجاتا جس میں ایک جگہ فنکاروں کے لیے کہا جاتا ہے کہ
"تیرے مغنّی کی ہر صدا میں تیری ہی خوشبو مہک رہی ہے
" ہر ایک سُر میں ہر ایک لے میں تیری محبت چمک رہی ہے
تو دوسرے انترے میں قومی مجاہدوں کو وطن کی مٹی سے گواہی دلوا کر اس طرح مخاطب کیا جاتا ہے کہ
تیرے جیالے سپاہیوں نے تیری حفاظت کا عزم لے کر
ہر ایک ذرّے کو جگمگایا قدم قدم پہ لہو بہایا
وطن کی مٹی گواہ رہنا
مسرور انور کی پہچان اور شناخت وہ ملّی نغمہ ہے جو جنگ کے بعد شہناز بیگم کی آواز میں نشر ہوا اور جس پر پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے انہیں 25 روپے کا چیک بھی ملا تھا جو انہوں نے تادمِ مرگ کیش نہیں کروایا اور کہا کہ "اللہ کے حضور یہی کہوں گا کہ میرے نامۂ اعمال میں کچھ نہیں تاہم تیرے نام پہ حاصل کیے گئے مُلک کے لیے یہ دعا ضرور لکھ کر آیا ہوں" ایسا ہی کچھ سرسید مرحوم نے الطاف حسین حالی کی "مسدس مدوجزراسلام "کے بارے بھی کہا تھا ۔ یہ ملّی نغمہ آج ہر پاکستانی کے دل کی دھڑکن ہے جو کبھی شہناز بیگم تو کبھی مہدی حسن کبھی حبیب ولی محمد تو کبھی صبیحہ خانم اور کبھی ملکہ ترنم نورجہاں کے ہمراہ مسعود رانا احمد رشدی اور مالا کے ساتھ مل کر گونجتا ہے اور کہنا ہے " سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے " یہ ملّی نغمہ اُس وقت کے وزیرِا عظم جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو بھی پسند تھا ۔آج یہ ملّی نغمہ کئی گلوکار گانے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں ۔
سوہنی دھتی اللہ رکھے جیسا نغمہ لکھنے کے بعد انہوں نے " جگ جگ جیے میرا پیارا وطن"بھی تحریر کیا جسے سب سے پہلے صبیحہ خانم اور پھر ضیائی عہد میں ناہید اختر نے گایا اس قومی نغمہ کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ترین قومی نغمات میں ہوتا ہے ۔ " وطن کی مٹی گواہ رہنا " جو جنگِ دسمبر 1971 میں لکھا گیا تھا اُس کا مرکزی خیال جناب مسرور انور صاحب کے ذہن پر بار بار دستک دے رہا تھا لیکن چونکہ وہ جنگی ترانہ تھا اسی لیے انہوں نے اُسی زمین اور مکھڑے کے ساتھ نئے اشعار تحریر کیے اور پھر یہ نغمہ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز سے خلیل احمد کی موسیقی کے ساتھ نیّرہ نور کی آواز میں نشر ہوا تو آج تک شاعری موسیقی اور آواز کی بنا پر اس کا شمار بھی پرجوش اور پیغام آفریں ملّی نغمہ میں ہوتا ہے ۔ اسی دوران انہوں نے پاکستان ٹیلیویژن کراچی مرکز کے لیے ایک اور دعائیہ قومی نغمہ " اللہ پاکستان جیے" بھی تحریر کیا جسے امجد حسین نے نثار بزمی صاحب کی طرز میں بہت خوبصورتی سے گایا کہ سننے والے اگر دل سے سُنیں تو اُن کی آنکھیں اس دعا پر اشکبار ہوجائیں اسی طرح بزمی صاحب ہی کی موسیقی میں مسرو انور صاحب نے ایک نغمہ " زندگی رقص کرتی رہے گی حسن گیتوں میں ڈھلتا رہے گا" تحریر کیا جسے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز سے مہناز بیگم نے گایا۔اداکار ندیم کی آواز میں " ہم سب ہیں لہریں کنارا پاکستان ہے"ناہید اختر کا فلم " کامیابی " میں نغمہ ہے "اپنے وطن سے پیار ہمیں ہم گیت اسی کے گاتے ہیں" مسرور انور صاحب کے جذبۂ حب الوطنی کے شاہکار ہیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کا پہلا ایسا قومی نغمہ آئی لّو مائی پاکستان بھی تحریر کیا جس کا مکھڑا انگریزی میں تھا اس نغمہ کو پاکستان ٹیلی ویژن کے نامور پروڈیوسر جناب تاجدار عادل صاحب نے لاہور مرکز کے سے جاری اپنے پروگرام "معاف کیجیے گا" کے لیے جناب مسرور انور سے بے حد اصرار کے بعد لکھوایا جسے کراچی کے ایک گلوکار عزیز وارثی نے گاکر نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا غالباََ یہ مسرورانور صاحب کا تحریرکردہ یہ آخری قومی نغمہ تھا ہاں اُن کے بہت سے غیر ریکارڈ شدہ قومی نغمات بعد میں بھی ریڈیو اور ٹی وی سے نغمات کی صورت بنتے رہے ۔ مسرور انور صاحب کا شمار پاکستان کے معروف قومی شاعروں میں ہوتا ہے جنہیں وطن کی مٹی ہمیشہ یاد رکھے گی . اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرما کر اُن کے درجات بلند کرے ۔آمین
تحریر : ابصار احمد
مسرور انور
No comments:
Post a Comment