!!ذکرساٹھ کی دہائی کے مقبول قومی نغموں کا ۔۔۔۔
!تمام اہلَ وطن کو جشنِ تخلیقِ پاکستان مبارک
آج صبح محترم جناب عابد علی بیگ یا غالباََ شکور پٹھان صاحب کی پوسٹ جنگِ ستمبر سے قبل کے ملّی نغمات بارِ دگر نگاہ سے گذری ۔ قومی نغمات پر مضامین پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے اور وہ بھی جب جناب شکور پٹھان جناب عقیل عباس جعفری یا پھر جناب عابد علی بیگ جیسے افراد لکھ رہے ہوں ۔ ویسے لاہور ریڈیو کے معروف براڈ کاسٹر محترم سلیم الرحمٰن صاحب خوب لکھتے ہیں کہ قاری اُن کے لفظوں میں بہہ کر اُنہی لمحات میں کھوجاتا ہے تاہم آج تک قومی نغمات پر اُن کا کوئی مضمون نگاہ سے نہیں گذرا۔ عابد صاحب نے جنگِ ستمبر سے قبل ،معروف قومی نغمات کے حوالے دیے تھے تو سوچا کہ اب وقت کی فراغت کو غنیمت جانتے ہوئے 60 کی دہائی کے معروف قومی نغمات پر کچھ لکھوں ۔ ویسے اُس عشرے کے گذرجانے کے 17 برس بعد یعنی 1987 کو میں نے آنکھیں کھولیں لیکن چشمِ تصور میں وہ دور بھی محسوس کرسکتا ہوں جب گھروں میں گراموفون یا ریڈیو گرام ہوتے تھے ۔ 78 کی رفتار والے ریکارڈز کا زمانہ جارہا تھا اور 45 کی رفتار والے پلاسٹک کے ریکارڈ آنا شروع ہوگئے تھے جن کی عمر بھی طویل ہوتیں اسی لیے میرے پاس قومی نغمات کے کئی ریکارڈ بالکل نئی حالت میں موجود ہیں ! بہرحال بات ہورہی تھی قومی نغمات کی تو اس ضمن میں جنگِ ستمبر کے جنگی ترانوں کی اپنی ہی ایک تاریخ ہے اور وہ خود قومی نغمات کا اہم باب ہیں جن پر پاک فوج کے سرکاری جریدے " ہلال " میں " گیت بنے ہتھیار " جیسا مضمون لکھ چکا ہوں جو الحمداللہ ایک حوالہ بن چکا ہے اسی لیے جنگی ترانوں کو ہذف کرکے اُس دور کے کچھ معروف قومی نغمات کا ذکر کرتا ہوں ۔
سلیم رضا اور احمد رشدی نے 1964 میں کراچی ریڈیو پر خلیل احمد کی موسیقی میں حمایت علی شاعر کے 2 قومی نغمات " سوئے منزل چلے اور بہ یک دل چلے " اور " ساتھیو ! سبز پرچم اڑاتے چلو زندگی کے ترانے سناتے چلو " ریکارڈ کروائے ۔ آخرالذکر قومی نغمہ تو گویا وطنِ پاک کے دلکش مناظر اور صبحِ وطن کی خوبصورت تصویر پیش کررہا تھا خلیل احمد نے اس کی موسیقی بھی خوب ترتیب دی جو رزمیہ انداز کی تھی۔ موصوف اُن دنوں کراچی کے علاقے انکوائری آفس ناظم آباد میں مقیم تھے اور ریڈیو پر گاہے بہ گاہے طرز سازی کرتے ۔ یہ نغمہ حال ہی میں اپنے ایف ایم پروگرام ہرتان پاکستان میں شامل کیا تو کئی افراد کے فون اور پیغامات آئے اور انہوں نے اپنی اس گمشدہ یاد کو زندہ کرنے پر مبارک باد دی ۔ اللہ سب کو خوش رکھے ( آمین ) ۔
ان نغمات کے علاوہ دورانِ جنگ حبیب جالب مرحوم کے بھائی مشتاق مبارک نے ایک پر جوش قومی نغمہ لکھا جو جنگی حالات کے ساتھ ساتھ عمومی قومی نغمہ بھی تھا ، بول بھی کیا خوب تھے کہ
جینا ہے اگر یارانِ وطن ۔۔۔ جینا ہے اگر یارانِ وطن
اخلاص و وفا کی شمعوں سے پُرنور کرو ایوانِ وطن
اس نغمہ کا ٹیپ کا مصرع تھا کہ
تاریخ کی جب بھی آنکھ اٹھے’’
‘‘بے داغ ملے دامانِ وطن
اس پرجوش نغمے کو اقبال علی، تاج ملتانی ،ایس بی جان اور ساتھیوں نے گایا تھا لیکن اس میں واضح آواز اقبال علی مرحوم کی تھی ۔ اقبال علی صاحب کراچی ریڈیو کے اہم گلوکار تھے جن کی مردانہ آواز سامعین کو متاثر کرتی اور اُن کے قومی نغمات تو گویا اُن کی پہچان بن گئے ، اقبال علی غالباََ 1988 کو دنیا سے رخصت ہوئے تھے ۔ اُن کی شادی ریڈیو کی معروف گلوکارہ رشیدہ بیگم سے ہوئی اوراُن سے ہونے والی ایک بیٹی صدف اقبال نے بھی گلوکاری شروع کی تھی لیکن اب معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں ؟ رشیدہ بیگم نے بھی اسی عشرے میں کئی یادگار قومی نغمات گائے جن میں جنگ کے دوران عالم تاب تشنہ کا تحریر کردہ قومی نغمہ ’’ مہک رہا ہے وفا کے گُلوں سے یہ صحنِ چمن‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ 1967 میں اقبال علی ، رشیدہ بیگم اور دیگر آرٹسٹس نے مل کر قائدِ اعظم کو شاندار نذرانہ ’’ اے قائدِ اعظم تو زندہ رہے گا پائندہ رہے گا ‘‘ بھی ریکارڈ کروایا ۔
اے نگارِ وطن، اے وطن کی زمیں ۔۔۔ تیرا ثانی زمانے میں کوئی نہیں‘‘ بھی انہی گلوکاروں کا شاندار نذرانۂ وطن تھا ۔’’
اب بات کرتے ہیں دہلی میں پیدا ہوکر ملتان میں سکونت اختیار کرنےوالی گلوکارہ اقبال بانو کی جنہوں نے دیگر کئی فنکاروں کی طرح جنگِ ستمبر ہی میں قومی نغمات کی دنیا میں قدم رکھا اور کئی یادگار قومی نغمات گائے ۔ اقبال بانو کی آواز میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا تحریر کردہ قومی نغمہ :
اے جوانانِ وطن اے جوانانِ وطن’’
تم سے ہی ہر لحظہ خندہ ہیں گلستانِ وطن
تم سے ہی ہر وقت تازہ ہیں بہارانِ وطن
تم اگر چاہو تو لوٹ آٸیں وہ ایامِ کہن
‘‘اے جوانانِ وطن اے جوانانِ وطن
مقبولیت حاصل کرگیا جس میں قوم کے جوانوں کو مخاطب کرکے انہیں قوم کا معمار بتایا گیا تھا ۔ استاد نتھو خاں صاحب کی موسیقی سے سجے اقبال
بانوکے اس نغمے کا خمار ابھی اترا ہی نہیں تھا کہ انہوں نے بینش سلیمی کا تحریر کردہ نغمہ
‘‘ میرے وطن کے نوجواں ، وطن کے گیت گائے جا ‘‘
گاکر نوجوانوں کو موٹیویٹ کیا ۔ ان نغمات میں نوجوانوں سے مراد فوجی بھائی ہی لیے جاتے تھے لیکن یہ دونوں نغمات اسکاؤٹس جمبوری میں بھی پیش ہوتے ۔
شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں صاحب مرحوم بھی اُس دور کے قومی نغمات میں نمایاں رہے اور اُ ن کی آواز میں میجر ضمیر جعفری صاحب کا تحریر کردہ نغمہ
جھلمل جھلمل ہر چہرے پر ہمت کا لشکارا’’
افق افق پر چاندی سونا روشن چاند ستارہ
‘‘پاکستان ہمارا
بھی مقبول ہوا تو حمید نسیم کے تحریر کردہ نغمے
تیرا وجود ہے میری ہستی’’
میری نمود ہے تیری شان
‘‘میرے پیارے پاکستان
نے بھی قومی نغمات میں اُن کے مقام کو مزید بلند کیا ان دونوں نغمات کی موسیقی جناب نہال عبداللہ صاحب نے مرتب کی تھی جو مہدی حسن صاحب کے ماموں تھے ۔ خاں صاحب کی آواز میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب کا تحریر کردہ نغمہ
ہمت کے شناور کو بھنور بھی ہے کنارہ’’
‘‘کشتی کا بھروسا نہ کھویّے کا سہارا
بھی اُس وقت موجود افراد کو ضرور یاد ہوگا یا پھر یہ سطور پڑھتے ہوئے اُن کے ذہن میں فوراََ تازہ ہوجائے گا ۔ مہدی صاحب کے اِن نغمات پر تبصرہ کرنا تو میرے لیے ممکن نہیں ہاں البتہ میرے کرم فرما اور محقق کلاسیکل نغمات برادرم جناب عرفان گبول صاحب اس بارے میں جرور بتاسکتے ہیں کہ وہ کس راگ اور ٹھاٹھ میں کمپوز ہوئے !
احمد فراز کا تحریر کردہ نغمہ ’’ دائم آباد رہیں تیری انجمن ، اے وطن اے وطن اے وطن ‘‘ نگہت سیما کی آواز میں نشر ہوکر مقبول ہوا تاہم اس نغمے کو 1971 کی جنگ میں طاہرہ سید نے ایک نئی طرز کے ساتھ گایا تو نگہت سیما صاحبہ کا نغمہ ماضی میں کھوگیا۔ ممکن ہے کسی کو یاد ہو
اُس دور میں تاج ملتانی صاحب کا نام نہ لینا ذیادتی ہوگی جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے ذیادہ قومی نغمات گائے ہیں جو ذیادہ تر جنگی ترانے تھے ،1968 میں بہزاد لکھنوی مرحوم کا تحریر کردہ نغمہ ’’ یومِ آزادی پر کرتے ہیں ہم پرچم کو سلام‘‘اور کلامِ اقبالؒ ’’ یارب ! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے ‘‘ اور ’’ یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے ‘‘ نے تو گویا تاج ملتانی کی شہرت کو چار چاند لگادیے تھے ۔ ان نغمات میں اقبال علی بھی اُن کے ہمراہ تھے۔
عشرت جہاں صاحبہ جو اِس وقت بقیدِ حیات اور علیل ہیں کجن بیگم اور شمیم بانو جیسی ریڈیو آرٹسٹس کی ہمشیرہ تھیں انہوں نے کوکب جہاں کے ساتھ مل کر جناب جوہر میر صاحب کا تحریر کردہ نغمہ’’ سرزمینِ وطن ، ذرہ ذرہ تیرا رشکِ لعلِ یمن ‘‘ گایا جو اُس دور کا ایک اور یادگار نغمہ ہے ۔
کراچی ریڈیو کی ایک اور فنکارہ خورشید بیگم جن کی آواز قومی ترانے میں بھی شامل ہے وہ بھی بقیدِ حیات اور لندن میں مقیم ہیں اُن کی آواز میں جناب الطاف پرواز صاحب کا تحریر کردہ نغمہ ’’ اے وطن پاک وطن ، میری آنکھوں کے لیے سُرمہ تیری خاک وطن‘‘ بھی مقبول اور یادگار قومی نغمات میں شمار ہوتا ہے ۔
ساٹھ کے عشرے کے آخری سالوں میں ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں جناب منظر ایوبی صاحب کا تحریر کردہ نغمہ
چڑھتا چاند ابھرتا سورج پیارا پاکستان
دلکش دلکش روشن روشن سارا پاکستان
اور
1970 میں نگہت سیما ، اقبال علی، اسما احمد اور دلشاد بٹ کی آوازوں میں صہبا اختر کا لکھا ہوا نغمۂ پرچم ’’ سلام پرچمِ وطن سلام ‘‘ بھی اس عشرے کے معروف اور ہر دلعزیز قومی نغمات تھے ۔ ملکہ ترنم کا نغمہ پہلے زوار حسین اور ساتھیوں نے بھی گایا تھا ۔
کلامِ اقبالؒ جو ملّی نغمات ہی کی اہم جہت ہیں اُن میں شمیم بانو ، تاج ملتانی اور ساتھیوں کی آوازوں میں ’’ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ ‘‘ اور شمیم بانو ہی کے ہمراہ کجن بیگم ، عشرت جہاں اور ساتھیوں کی آوازوں میں استاد نتھو خاں صاحب کی مستند طرز پر ’’ خودی کا سرِ نہاں لاالہ الا اللہ‘‘ نمایاں اور مقبول قومی نغمات ہیں ۔ زوار حسین صاحب کی آواز میں مہدی ظہیر کی موسیقی میں فارسی کلامِ اقبالؒ " تیز ترک گامزن منزلِ مادور نیست " کا شمار بھی یادگار قومی نغمات میں ہوتا ہے جو صدر ایوب خان کے عشرہٕ ترقی کے موقع پر روزانہ ریڈیو سے صبح کی پہلی مجلس میں نشر ہوتا ۔ اس کی موسیقی میں اونٹوں کے قافلے کو مدنظر رکھتے ہوئے گھنٹیوں کی آوازیں بھی شامل کی کیں کیونکہ زبورِ عجم میں شامل اس نظم کا عنوان ہی " نغمہٕ سارباں " ہے ۔
وہ عشرہ دورِ ایوبی پر محیط تھا اسی لیے جنگِ ستمبر کے بعد ریڈیو سے کورس آوازوں میں رئیس فروغ مرحوم کا تحریر کردہ شانِ ایوبی میں نغمہ ’’رہبرِ محترم ہم ترے ساتھ ہیں‘‘ بھی جنگ کے دوران مقبول ہوا ۔ جنرل ایوب خان مرحوم سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اپنے والد سمیت کئی افراد کو ایوب خان کا پُر زور حامی پایا ہے اور حال ہی میں شکور پٹھان صاحب کے بلاگ نے تو اُس دور کی تصویر اور واضح کردی ۔ کیا زمانہ ہوگا کہ جب سادہ مزاجی اور سادہ طبیعت عام تھی !
ساٹھ کی دہائی ہمارے قومی نغمات کے عروج کی دہائی تھی جس میں بے شمار اور بیش بہا قومی نغمات بنے لیکن ماضی کی صرف چند صوتی تصاویر بس یونہی آپ کو دکھا دیں ورنہ مضمون لکھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔ یقینا یہ عہد جس جس نے دیکھا ہوگا انہیں ہمارے یہ قومی نغمات ضرور یاد آئیں گے جن میں سے اکثر اب نایاب ترین ہیں جس کی وجہ مستند اداروں کی اس جانب بے اعتنائی اور پھر گراموفون کمپنیوں کی جانب سے ان کے ریکارڈ ریلیز نہ کرنا ہے پھر بھی کانوں کی دہلیز پر یہ نغمات احساس میں دستک دیتے رہیں گے ۔
( ابصار احمد )
1 comment:
Great information. Lucky me I found your site by accident (stumbleupon).
I've book marked it for later!
Post a Comment