Search Patriotic Song,Singer,Poet in This Blog.

Friday, May 19, 2017

گیت بنے ہتھیار Geet Banay Hathyar by Absar Ahmed ( Article on War Songs of 1965 )




گیت بنے ہتھیار
تحریر و تحقیق : ابصار احمد



پانچ اور چھ ستمبر  کی درمیانی شب جب ارضِ پاک کے باسی سکون کی نیند سو رہے تھے کہ صبح صادق سے کچھ دیر قبل اچانک پاک سرزمین پر دھماکوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں ،فضائیں بارود سے اٹ جاتی ہیں ،سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ اچانک کیا ہوا ہے ؟مگر سرحدِ پاک کے محافظ سمجھ گئے کہ اٹھارا برس سے خار کھایا دشمن آج بین الاقوامی سرحدعبور کر چکا ہے،ستلج رینجرز کے جوانوں نے صرف ۱۲۰ سپاہیوں کی مدد سے دشمن کی پوری بریگیڈ کو روکے رکھا یہاں تک کہ اللہ کے منادی کی تکبیریں گونجنے لگیں اور پھر ۶ ستمبر کا سورج طلوع ہوا تو ریاستِ مدینہ ثانی کی فوجِ ظفرمند اپنے تمام جوانوں کے ساتھ میدانِ جہادمیں تھی۔
علی الصبح شہرِ اقبالؒ کے کنارے بہتی نہر بمباں والا راوی بیدیاں دیپال پور لنک پر دشمن کا جمِ غفیر تابڑ توڑ حملے کی کوششوں میں مصروف تھا کہ صرف بی آربی عبور کرکے پاکستان پر اپنے ناپاک قدم رکھ سکے مگر پاک فوج کے جوانوں نے لاہور میں مشروب پینے کی خواہش رکھنے والوں کو ان ہی کا لہو پلانا شروع کر دیا،صبح زندگی اپنے معمول پر تھی مگر آج اتحاد کا شاندار نظارہ تھا،پاک فوج کے ہمراہ پوری قوم ساتھ تھی ،لگتا تھا جیسے ایامِ ماضی گردش میں آگیا ہے ۔یک دم ریڈیو پاکستان لاہور سے حملے کی خبر نشر ہوتی ہے اس کے فوراََ بعد عنایت حسین بھٹی کی آواز میں فلم چنگیز خان کا ترانہ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب قوتِ شہادت ہے آیا‘‘ ہر پاکستانی کو جذبہ جہاد پر ابھرتے ہوئے کہتا ہے کہ
’’ چلو واہگہ کی سرحد پر وطن پر وقت آیا ہے
چلو واہگہ کی سرحد پر چلو واہگہ کی سرحدپر‘‘
اس کے بعد تمام ریڈیو اسٹیشنز پر قومی نغمات گونجنے لگتے ہیں،پھر۔۔۔ارضِ وطن کے شعراء،مطربان اور موسیقاروں کا رخ ریڈیو پاکستان کی طرف ہوتا ہے تاکہ وہ اس ملّی فریضے میں پاک فوج کے ہمراہ اپنا اپنا حصہ ڈال کر قرونِ اولیٰ میں مجاہدین کے لیے رجز پڑھنے والی فوج میں اپنا نام لکھوا سکیں ،یہاں سے ہماری قومی حربیہ موسیقی کا ایک روشن باب شروع ہوتا ہے جو ہمارے سبز گیتوں کی تاریخ میں سب سے ذیادہ نمایاں ہے۔
صبح صدرمملکت جناب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کی تاریخی تقریر نشر ہوتی ہے جس کے فوراََبعد منور سلطانہ ،دھنی رام اور قادر فریدی کی آواز میں نغمہ نشر ہوتا ہے ’’آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھے چلو‘‘ یہ نغمہ ۸ سال پہلے کسی فلم کے لیے بنا تھا مگر آج اس کے الفاظ اپنی اہمیت بتا رہے تھے۔
ریڈیو پاکستان میں جتنے قومی نغمات تھے سب نشر ہونے لگے تو آنجہانی نوئل ڈائس المعروف سلیم رضا سب سے پہلے ریڈیو پہنچے اور بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کرنے کا اعلان کیا۔جنگِ ستمبر میں سب سے ذیادہ نغمات انہوں نے ہی ریکارڈ کروائے جن کی تعداد ۲۲ تھی ۔۱۷ روزہ جنگ کے دوران ان کے کچھ نغمات یہ تھے جو انہوں نے پورے جوش وجذبات سے گائے:
اے ہوا کے راہیو!بادلوں کے ساتھیو! ( شاعر :محمود شام )
تکبیر سے فضاء کو جگاتے ہوئے بڑھو ( شاعر : احسان دانش )
آزاد ہیں ہم ،آزاد ہیں ہم ( شاعر : تنویر نقوی )
ساڈا اللہ اک قرآن ہے اک اسیں غازی پاکستان دی اے ( شاعر:صوفی تبسم )
اے میرے زندہ وپائندہ وطن پاک وطن ( شاعر :ضمیر جعفری )
میرے لاہور شہر دیاں خیراں ،رنگ لایا راوی دیاں لہراں (شاعر :استاد دامن )
یہ دیس میرا دیس ( شاعر : یوسف ظفر )
اے وطن میرے وطن پیارے وطن ( شاعر: قتیل شفائی)
جگ جگ جی نگری داتا کی ( شاعر :قیوم نظر )
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر ( شاعر : ناصر کاظمی)
جہانِ زندگی کو ہوش میں لانے کا وقت آیا ( شاعر: محشر بدایونی )
اٹھو اٹھو مجاہدو! ہاں خدا کا نام لو ( شاعر :قیوم نظر )
توحید کے متوالو! باطل کو مٹادیں گے ( شاعر :حبیب جالب )
جنگ کے میداں تیرے صحنِ چمن سے کم نہیں ( شاعر :ظہیر کاشمیری)
طارقؒ اک جرنیل ہمارا،فتح کیا اسپین کو جس نے (شاعر:قیوم نظر)
ان کے علاوہ شہرِ استقلال سیالکوٹ کو شاندارخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے دو نغمات ساکنانِ سیالکوٹ کی نذر کیے جو یہ تھے:
زندہ رہے گا،زندہ رہے،سیالکوٹ تو زندہ رہے گا ( شاعر :ناصر کاظمی ، نشر ۱۷ ستمبر،ریڈیو پاکستان لاہور )
اے ارضِ سیالکوٹ تم کو مرا سلام ( شاعرہ :کشور ناہید،نشر ۱۹ ستمبر ،ریڈیو پاکستان لاہور )
جنگِ ستمبر کے عظیم مجاہد میجر عزیز بھٹّی شہید ؒ کو ناصر کاظمی کا تحریر کردہ خراجِ عقیدت’’تو ہے عزیزِ ملّت نشانِ حیدر‘‘ گانے کا اعزاز بھی سلیم رضا ہی کے دامن میں ہے۔
ریڈیو پاکستان لاہور پر پہلا ترانہ ۶ ستمبر ہی کو تیار ہوا جو دراصل صدرِ پاکستان کی تقریر کے الفاظ’’ہندوستانی حکمران ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قسم کو للکارا ہے‘‘ سے متاثر ہوکر حمایت علی شاعر نے لکھوایا تھا،مسعود رانا اور شوکت علی نے پیش کیا جوشام ساڑھے پانچ بجے فوجی بھائیوں کے پروگرام میں نشر ہوا۔ترانہ کے بول کچھ اس طرح تھے ’’ اے دشمنِ دیں تو نے کس قوم کو للکار۔۔۔لے ہم بھی ہیں صف آراء‘‘۔اس کے علاوہ انہی دونوں گلوکاروں کا مشہور ترانہ جو ۲ دن قبل ہی ریلیز ہونے والی فلم ’’مجاہد‘‘ کا حصہ تھا جنگِ ستمبر کا مشہور ترانہ ثابت ہوا۔حمایت علی شاعر کی شاعری اور خلیل احمد کی موسیقی سے سجا ’’ساتھیو!مجاہدو!جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ آج بھی سامعین اور فوجی بھائیوں کے جذبات کو گرمادیتا ہے۔مسعود رانا اور شوکت علی نے ۱۳ ستمبر کو حبیب جالب کا تحریر کردہ نغمہ ’’کردے گی قوم زندہ ماضی کی داستانیں‘‘ بھی ریکارڈ کروایا جو بعد میں فلم’’وطن کا سپاہی‘‘کا حصہ بنا۔
ملکہ ترنم نورجہاں کا ذکر نہ ہوتو ہماری جنگی اور سبز گیتوں کی تاریخ ادھوری لگتی ہے کیونکہ وہ اس وقت فلم انڈسٹری کی سب سے مہنگی گلوکارہ تھیں جو ایک گیت کی تسجیل کے لیے ۴ ہزار روپے لیا کرتی تھیں مگر انہوں نے وطنِ پاک کی محبت میں ۱۰ نغمات بلا معاوضہ ریکارڈ کروائے اور ریڈیو لاہور ہی کو اپنا ٹھکانا بنا لیا ا نیز تمام نغمات کی موسیقی انہوں نے خود ہی ترتیب دی سوائے ’’اے وطن کے سجیلے جوانو! ‘‘کی،جس کے موسیقار میاں شہریار تھے ۔ اور ۱۲ ستمبر کو نشر ہونے سے پہلے یہ رن کچھ کی جنگ کے دوران بنا تھا تاہم وہ اس وقت نشر نہیں ہو سکا۔۱۷ روزہ جنگ میں میڈم کے جنگی ترانوں کی تفصیل یوں ہے:
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں صوفی غلام مصطفی تبسم ۸ ستمبر
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے صوفی غلام مصطفی تبسم ۱۰ ستمبر
یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی صوفی غلام مصطفی تبسم ۱۱ ستمبر
اے وطن کے سجیلے جوانوں جمیل الدین عالی ۱۲ ستمبر
امیدِ فتح رکھو اور علم اٹھائے چلو احسان دانش ۱۳ ستمبر
جاگ اے مجاہدِ وطن مظفر وارثی ۱۴ ستمبر
تیرے باجرے دی راکھی صوفی غلام مصطفی تبسم ۱۵ ستمبر
کرنیل نی جرنیل نی صوفی غلام مصطفی تبسم ۱۶ ستمبر
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن علامہ محمد اقبالؒ ۱۷ ستمبر
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو تنویر نقوی ۱۸ ستمبر
حکومتِ پاکستان نے ان کی اس بے مثل خدمات کے صلے میں ۱۸ جنوری ۱۹۶۶کو تمغہ خدمت سے کے ساتھ ساتھ ملکہ ترنم کے خطاب سے بھی نوازا۔
ریڈیو لاہور سے مشہور فلمی گلوکار عنایت حسین بھٹّی نے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے یہ چار نغماتِ وطن پیش کیے:
وطن کو تم پہ فخر ہے ،وطن کی تم ہی شان ہو
میرے وطن کا سبز ہے پرچم جس پر چاند ستارہ ہے
وسے ساڈا پاکستان پیر میریا جگنی
تیرے ہمدم ترک انڈونیشیا،ایران و چیں
شاہینوں کے شہر سرگودھا کو گیتوں میں واحد خراجِ تحسین بھی بھٹّی صاحب ہی نے پیش کیا ناصر کاظمی کے قلم سے نکلے اس نغمے کے بول یہ تھے ’’زندہ دلوں کا گہوارا ہے سرگودھا میرا شہر‘‘ عنایت حسین بھٹی کا جذبہ حب الوطنی پر یہ واقعہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنا تمام سرمایہ پاک فوج کے دفاعی فنڈ میں جمع کروادیااور صرف ۲۵۰ روپے رکھے ۔جب ان کی اہلیہ نے پوچھا کہ اگر جنگ طویل ہوگئی تو پھر کیا ہوگا؟اسپر انہوں نے برجستہ جواب دیا اگر میرا پیارا ملک ہی نہ رہا تو کیا ہوگا؟اس لیے میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے۔
فلم شہید کے لیے فیض کا نغمہ’’نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں‘‘ گا کر شہرت حاصل کرنے والے منیر حسین نے بھی ریڈیو لاہور سے افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان سبز گیتوں سے خود کو منسوب کروایا:
دشمن اج للکاریا ساڈے دیس جانثاراں نیں( شاعر :خواجہ عطاء )
مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو ( شاعر : احسان دانش)
زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور ( شاعر : قیوم نظر )
سیالکوٹ کے لوگوں پہ فخر ہے ہم کو ( شاعر : قیوم نظر)
سمندروں کے پانیو! بہو تو تیز تر بہو! ( شاعر :محمود شام )
۱۳ ستمبر کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور موسیقار میاں شہریار نے جنگی ترانوں میں مشیر کاظمی کا تحریر کردہ ایک خوبصورت اور جذبات سے بھرپور قومی نغمہ متعارف کروایا جسے مشہور پسِ پردہ گلوکارہ نسیم بیگم نے احساس میں ڈوب کر گایا
’’اے راہِ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو!
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘
یہ وہ نغمہ تھا جس کے اثرات چونڈا کے محاذپر گھمسان کی جنگ میں نظر آئے،جو وقتی تھکاوٹ سے نڈھال مجاہدین کو جذبہ شہادت پر ابھار کر قتیل شفائی کے الفاظ میں نسیم بیگم ہی کی آواز میں کہتا تھا
’’لائی ہوں میں تمہارے لیے میں پیار کا پیام
اے پھول سے مجاہدوں تم کو مرا سلام
اے مادرِ وطن اونچا ہو تیرا نام‘
ان کے علاوہ نسیم بیگم کا ایک اور خوبصورت قومی نغمہ ’’وطن کی شان میرا ہمراہی۔۔۔میری دنیا ہے میرے سر کا تاج ہے‘‘ بھی دورانِ جنگ نشر ہوا جو بعد میں فلم’’وطن کا سپاہی‘‘ میں بھی شامل تھا۔
مشہور غزل گائیک استاد امانت علی خان نے بھی دو قومی نغمات ریکارڈ کروائے۔جن میں اثر ترابی کا تحریر کردہ نغمہ’’اے شہیدانِ وطن تم پر سلام ‘‘ ان کو تمغہ خدمت سے نواز گیا جبکہ احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا دوسرا نغمہ بھی وطنِ عزیز کے رکھوالوں سے محبت کا منفرد انداز ہے جس کے بول کچھ اس طرح ہیں :
وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو
مجھ کو اپنے نغموں سے بھی پیارے تم ہو‘
ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم نے بھی اپنی آواز کا جادو جگاتے ہوئے حمایت علی شاعر کا تحریر کردہ نغمہ’’اے بھائی تیرے ساتھ بہن کی ہیں دعائیں‘‘ پیش کیا اس کے علاوہ پاک فضائیہ کے طیارے سیبر ایف ۸۶ کے لیے ’’اے پاک فضائیہ تیرے سیبر کی خیر ہو‘‘ جیسا منفرد نغمہ بھی انہی کے کریڈٹ میں ہے۔
مشہور علاقائی گلوکار محمد عالم لوہار کی’’جگنی پاکستان دی اے‘‘ بھی منفرد اور مشہور جنگی ترانہ ہے جسے ڈاکٹر رشید انور نے تحریر کیا ،یہ انوں نے اپنے روائتی انداز میں چمٹے کی دھن پر دو حصوں میں گائی جس کا ایک حصہ اب بالکل نایاب ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ صہبا اختر کا نغمہ’’دنیا جانے میرے وطن کی شان‘‘ اور ڈاکٹر رشید انور ہی کا تحریر کردہ ’’ساڈے شیراں پاکستانیاں‘‘ اور ’’ہند کے حاکمو! بے خبر رہبرو‘‘ ۱۷ دنوں میں محمد عالم لوہار کی طرف سے وطن، عزیز سے محبت کی زندہ مثالیں ہیں۔
لاہور ریڈیو کی ایک اور خوش گلو مطربہ نذیر بیگم بھی دفاعِ وطن میں پیچھے نہ رہیں اور انہوں نے بھی اپنی خوبصورت آواز میں یہ قومی و جہادی نغمات ریکارڈ کروائے :
نڈر دلیر بچیاں سری نگر کی بیٹیاں ( شاعر : ابو سعید قریشی )
چن میریا سیبر چلے پیا ، بھارت دا سینہ ہٹے پیا ( شاعر : اصغر حسین )
دیس دا ایک ایک سپاہی ( شاعر : استاد دامن )
ریڈیو لاہور کی طرھ ریڈیو کراچی بھی پیچھے نہ تھا یہاں بھی کئی مطربانِ وطن محاذِ صوت پر تھے،جن میں شہنشاہِ غزل مہدی حسن اور تاج ملتانی نمایاں رہے جبکہ نسیمہ شاہین اور نگہت سیما نے کورس میں تمام گلوکاروں کا ساتھ دیا۔مہدی حسن خاں صاحب نے مسرور انور کا تحریر کردہ نغمہ’’اپنی جاں نذر کروں‘‘ گا کر جنگی و قومی ترانوں کی صف میں قدم رکھا اس کے موسیقار سہیل رعنا تھے اور یہ نغمہ ۹ ستمبر کو نشر ہوا۔اس کے بعد خاں صاحب نے کئی نغماتِ حرب و وطن کی تسجیل کروائی جو یہ تھے:
اللہ کے وعدہ پہ مجاہد کو یقیں ہے ،اب فتح مبیں ،فتحِ مبیں ہے ( شاعر : رئیس امروہوی ، موسیقار :تصدق حسین)
پاک شاہینوں فضاء کے شہریاروں کو سلام ( شاعر :ضمیر جعفری )
سیالکوٹ کے میدانِ کارزار کو دیکھ ( شاعر :رئیس امروہوی )
اے ارضِ لاہور اے اہلِ لاہور،داتا کی نگری اے شہرِ لاہور ( شاعر : رئیس امروہوی ، موسیقی :سلیم گیلانی)
وطن کی آبرو رکھ لی وطن کے پاسبانوں نے ( شاعر :اختر کاشمیری ، موسیقی :شہریار )
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ( شاعر : علامہ محمد اقبالؒ ، موسیقی : تصدق حسین )
صورت نہ پرستم من بت خانہ شکستم من ( شاعر : علامہ محمد اقبالؒ ، موسیقی : پنڈت غلام قادر )
دشمنِ دین کے مقابل ہیں وطن کے غازی ( شاعر :عظیم سرور موسیقی :تصدق حسین)
کافر سے جنگ ہو تو مسلمان ایک ہے ( شاعر:مظفر وارثی )
ہم امن پسندوں کو نہیں جنگ گوارا ( شاعر :جون ایلیا موسیقی :سلیم گیلانی)
عظیم قوم کے بیٹے تیری جرأت کو سلام ( شاعر :مسرور زیدی ،موسیقی : ایس ایم حسنین )
تو نگہبانِ چمن ہے تجھے سب مان گئے ۔شہناز بیگم کے ہمراہ (شاعر:طفیل ہشیارپوری )
مہدی حسن خان صاحب کا سب سے مشہور قومی نغمہ وہ ہے جو انہوں نے اہلیانِ لاہور کی نذر کیا،پروڈیوسر جناب عظیم سرور کہتے ہیں کہ دورانِ جنگ اہلِ لاہور کے عزم و استقامت کے پیشِ نظر ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کو شاندار اور یادگار خراجِ تحسین پیش کیا جائے تو فوراََ رئیس امروہوی صاحب کو فون کیا انہوں نے یہ محاذ کی صورتحال پوچھنے کے بعد فون پر ہی فی البدیہہ لکھوادیا اور ایک گھنٹے کے اندر مہدی حسن ہی نے اس کی دھن بنائی اور ان کے ساتھ نسیمہ شاہین،اسماء احمد اور نگہت سیما نے مل کر اسے ریکارڈ کروادیا،شام ساڑھے پانچ بجے فوجی بھائیوں کے پروگرام میں یہ نغمہ پاک فضاؤں میں بکھرا تو ہر ایک کی زباں پر تھا:
خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
شہریوں کو غازیوں کو شہسواروں کو سلام
ریڈیو کراچی سے سب سے ذیادہ قومی نغمات گانے کا اعزاز ایک ۲۴ سالہ نوجوان گلوکار تاج ملتانی کو حاصل ہوا جنہوں نے ۶ ستمبر ہی کو کراچی ریڈیو سے محشر بدایونی کا تحریر کردہ نغمہ’’اپنی قوت اپنی جان لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ہر پل ہر ساعت ہر آن جاگ رہا ہے پاکستان‘‘ ریکارڈ کروایا جس کے موسیقار نتھو خان تھے۔یہ نغمہ دراصل چوروں کی طرح گھسنے والے دشمن کو بیدار پاکستان کا پتہ دے رہاتھا۔ان کا سب سے مشہور نغمہ وہ ہے جس کو سن کر بھارتی فوج بلبلا جاتی تھی اور معاہدہ تاشقند کے بعد ایک خصوصی درخواست پر اسے بند کروایا گیا ،ڈاکٹر رشید انور کے لکھے ہوئے اس نغمہ کے لیے پہلے ایس بی جان کا انتخاب ہوا مگر ۴ دن تک وہ طرز بنانے میں ناکام رہے تو پھر تاج ملتانی سے کہا گیا انہوں نے فوراََ اس کی طرز بنا لی تو استاد نتھو خان کی موسیقی کے ساتھ ۱۳ ستمبر کو دشمن کی حقیقت بتانے کے لیے یہ نغمہ تیا تھا
اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑیں اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
مہاراج! اے کھیڈ تلوار دی اے،جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی
پاک فضائیہ کو بھی پہلا خراجِ تحسین کراچی ریڈیو ہی سے پیش ہوا جسے تاج ملتانی نے ہی گایا،رئیس فروغ صاحب کا تحریر کردہ اور رفیق غزنوی کی موسیقی سے ہم آہنگ نغمہ’’شاہین صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک‘‘ آج بھی سننے والوں کو یاد ہوگا،اس کے علاوہ رئیس امروہوی کاتحریر کردہ ایک اور نغمہ ء فضائیہ ’’اپنے فضائیہ کے یہ انداز دیکھیے ‘‘ ۱۴ ستمبر کو انہوں نے ہی ریکارڈ کروایا۔ملک کے مشرقی حصے کے جذبات کو اجاگر کرتے ہوئے ابو سعید قریشی کی شاعری اور سہیل رعنا کی موسیقی سے سجا نغمہ’’آؤ چلیں اس پار مانجھی‘‘ بھی تاج ملتانی ہی کا تھا۔ان علاوہ تاج صاحب کے یہ نغمات جنگِ ستمبر کے دوران نشر ہوئے:
ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کہتے ہیں (شاعر :جون ایلیا موسیقی : لعل محمد اقبال)
یہ دس کروڑ انساں ملت کے ہیں نگہباں ( شاعر : مسرور انور ، موسیقی :لعل محمداقبال)
مرحبا عزم و شجاعت کے علمبردارو! (شاعر:عاشور کاظمی ، موسیقی : لعل محمد اقبال)
اے شہیدانِ وطن اے شہیدان وطن ( شاعر :نفیس فریدی بدایونی ،موسیقی :لعل محمد اقبال)
تم کو معلوم نہیں حق کے پرستار ہیں ہم ( شاعر :فیاض ہاشمی )
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے ( شاعر: علامہ محمد اقبالؒ )
میرے وطن کے نوجواں ،دلیر صف شکن جواں ( شاعر :قیوم نظر )
زمانے میں صدائے نعرہء تکبیر جاگے گی (شاعر:طفیل ہشیارپوری )
تو حدیثِ زندگی کی اس طرح تفسیر کر ( شاعر:طفیل ہشیار پوری )
نفس نفس میں ہے جن کے حیاتِ نو کا پیام۔ (اپنی اہلیہ نگہت سیما کے ہمراہ۔شاعر: ابو سعید قریشی ،موسیقار:پنڈت غلام قادر)
تم نے جیت لی ہے جنگ یہ اے جوانو! اے جیالو!( عشرت جہاں کے ہمراہ کورس میں ، شاعر :تراب نقوی، موسیقی :لعل محمد اقبال)
کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی فلم انڈسٹری کے شوخ گلوکار احمد رشدی مرحوم بھی جنگی ترانوں میں کسی سے پیچھے نہ رہے،انہوں نے اپنی روایتی شوخی دشمن پر نکالتے ہوئے بھارت پر تین طنزیہ اور انوکھے قومی نغمات ریکارڈ کروائے جن کے بول یوں تھے:
دوڑیو باپو بھارت دیش کی ہوگئی جگت ہنسائی ( شاعر:اکبر خان اصغر ، موسیقی : نتھو خان )
لالاجی جان دیو تسی مرلی بجاون والیو جنگ تہاڈی وسدی نئیں ( شاعر : سلیم گیلانی ، موسیقی : نتھوخان)
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی ( شاعر : سلیم گیلانی، موسیقی : نتھو خان)
دوارکا کے مضبوط بحری مستقر کو تباہ کرنے بعدپاک بحریہ کو پہلا خراجِ تحسین پیش کرنے لے لیے احمد رشدی اور نگہت سیما نے ۹ ستمبر ہی کی صبح یہ نغمہ نذرِ سامعین کیا
فرمانروائے بحرِ عرب پاک بحریہ
بھارت میں تیرا نام ہے بے باک بحریہ
( شاعر : جون ایلیا ،موسیقی :نتھو خان )
پاک فضائیہ کے عظیم ہواباز ائیر کموڈور(ر) غازی ایم ایم عالم ؒ کو مظفر وارثی کا تحریر کردہ واحد نغماتی نذرانہ احمد رشدی ہی کو پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے جس کا مکھڑا کچھ یوں ہے ’’ ناز ہے پاکستان کو تجھ پہ اے مشرق کے لال ۔۔۔اے شیرِ بنگال‘‘
جنگِ ستمبر میں احمد رشدی کے دیگر نغماتِ حرب یہ تھے:
اے کراچی مرحبا اے کراچی مرحبا ( شاعر :جون ایلیا )
لاہور سربلند ہے لاہور زندہ باد ( شاعر :جون ایلیا )
ارضِ سیالکوٹ حرمِ مرتبت ہے تو ( شاعر:حمید نسیم)
سر کشی ہے جنگ آمادہ تو پھر ہونہی سہی ( شاعر : جون ایلیا )
ہم گھبرو پاکستان کے ہم شیروں کے سردار ( شاعر :سلیم گیلانی )
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن ( شاعر :علامہ محمد اقبالؒ )
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش ( شاعر:علامہ محمد اقبالؒ )
کراچی سے ایک اور گلوکارہ ناہید نیازی نے ایک خوبصورت پنجابی ترانہ ’’جان دے کر اپنی توں ملک بچالیا۔۔۔صدقے میں جاواں ترے ماں کہنے والیا‘‘گایا جس میں ایک شہید کی ماں کے جذبات تھے اس گیت کو ساحل فارانی نے الفاظ میں سمویا جبکہ موسیقی مصلح الدین کی تھی،اسی طرح عشرت جہاں جنگِ ستمبر کی ایک لوری ’’میرے بیٹے آج میں تجھ کو نئی لوری سناتی ہوں۔۔۔اپنے شہیدوں کے بارے میں آج تجھے بتاتی ہوں‘‘ ریکارڈ کروائی۔نگہت سیما نے قتیل شفائی کا لکھا ’’اے میرے نورِ نظر جاتا تو ہے بہرِ جہاد۔۔۔جو نصیحت کر رہی ہوں ہر قدم پہ رکھنا یاد‘‘ گا کر ایک ماں کی مجاہد کو وصیت بتائی تو مالا بیگم نے حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے الفاظ میں ’’میرے بہادر بھیّا سینہ سپر رہنا‘‘ ریکارڈ کرواکر ایک بہن کے مجاہد بھائی سے جذبات کو عیاں کیا۔
جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان کے تمام اسٹوڈیوز اتنے مصروف تھے کہ وہاں ریکارڈنگ میں مشکلات پیش آرہی تھیں تو اس موقع پر مشہور گراموفون کمپنی ای ایم آئی نے فراغ دلی اور جذبہ حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اسٹوڈیوز اور ملازمین کی خدمات بلا معاوضہ ریڈیو کو پیش کردیں ،وہاں بھی کئی نغمات ریکارڈ ہوئے جن میں زرینہ آغا نے ۸ جنگی ترانے ریکارڈ کروائے،ان کے علاوہ مشہور صنعتکار خاندان تابانی گروپ کے حبیب ولی محمد (جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ) نے بھی اسی اسٹوڈیو میں دورانِ جنگ وہ قومی نغمات پیش کیے جو آج بھی ذہن کے پردوں میں محفوظ ہیں جن میں شاعر لکھنوی کا تحریر کردہ اور سہیل رعنا کی دھن سے مزیّن ’’اے نگارِ وطن تو سلامت رہے‘‘ ان کی پہچان ہے۔یہ نغمہ ۲۰ ستمبر کو نشر ہوا۔حمایت علی شاعر کی نظم ’’لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے ‘‘ اِن کی آواز میں محاذ پر مجاہدینِ پاک کے حوصلے بڑھاتی رہی۔
جنگِ ستمبر میں ملک کے مشرقی حصے کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے کشمیر سے لے کر لاہور کے محاذتک ارضِ وطن سے اپنی محبت کا ثبوت دیا اس لیے ان کے لیے بھی مغربی حصے نے نغماتِ تہنیت بنائے جو یہ تھے:
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام ( گلوکار :سلیم رضا،شاعر : شورش کاشمیری)
مشرقی پاک کے نوجواں غازیو! ( گلوگار :تاج ملتانی،زمرد بانو و دیگر،شاعر:رئیس امروہوی )
سلام اے ڈھاکا و چاٹگام کے غازی نگہبانو!( گلوکار :بشیر احمد اور ساتھی )
کشمیری مجاہدین کی لازوال قربانیوں اور جہدِ مسلسل کو بھی ہمارے فنکاروں نے بہت خوبصورت انداز میں یاد رکھا اور دورانِ جنگ یہ نغمات ریڈیو پاکستان اور ریڈیو صدائے کشمیر سے گونجتے رہے :
کشمیر سے وابستہ ہے تقدیر ہماری ( گلوکار :سلیم رضا )
اٹھے جہاد کے لیے سری نگر کے نوجواں ( گلوکار :سلیم رضا )
نڈر دلیر بچیاں سری نگر کی بیٹیاں ( گلوگارہ:نذیر بیگم )
جاگ اٹھا کشمیر،جاگ اٹھا کشمیر ( گلوکار :سلیم شہزاد )
اے وادی کشمیر اے وادی کشمیر ( گلوکاران :احمد رشدی،نگہت سیما و کورس )
اے وطن کے نوجواں واد�ئ کشمیر ہے دیکھ تیرا امتحاں ( گلوکارہ :زمرد بانو)
میرے وطن تیری جنّت مین آئیں گے اک دن ( گلوکارہ:انیقہ بانو )
اے وادیء لولاب اے وادیء لولاب ( ملکہ پکھراج )
جنگِ ستمبر کے فوراََ بعد ایک ایسا نغمہ ریڈیو کراچی سے نشر ہوا جس کے بغیر ہمارے عسکری سبز گیتوں کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ،وہ نفیس فریدی بدایونی کی تحریر کردہ ایک طویل نظم تھی جس کے کچھ حصے استاد حامد حسین کی ترتیبِ موسیقی پر گلوگار نہال عبداللہ نے ریکارڈ کروائے ،یہ پوربی زبان میں بھارتی فوج کی اپنے نیتاؤں سے شکایت کے ساتھ ساتھ بھارتی عوام کو پاکستانی فوج کے حوصلے بتارہی تھی،آلہ اودل کی طرز پر بنے اس نغمے کے بول یہ تھے’’پاکستانی بڑے لڑیا جن کی سہی نہ جائے مار‘‘۔یہ ہماری قومی نغمات کی تاریخ کا سب سے طویل جنگی ترانہ ہے جو تقریباََ ۱۴ منٹ پر مشتمل ہے۔اسی طرح یاور عباس کے الفاظ میں نہال عبداللہ دشمن کو بتا رہے تھے کہ 
"کبھی بھول کر نہ آنا میر ی سر حدوں کی جانب "
جنگِ ستمبر کے دوران ریڈیو پاکستان کراچی اور لاہور سے نشر شدہ کچھ گم گشتہ عسکری نغمات یہ ہیں:
دم بہ دم بڑھا قدم مہرباں ہے آسماں ( گلوکار : سلیم چوہدری، شاعر : قتیل شفائی،ریڈیو لاہور )
لہروں سے گذر لہراتا ہوا ( گلوکار :سلیم شہزاد ، شاعر :قتیل شفائی،ریڈیوکراچی )
اے وطن بیدار ہیں تیرے سجیلے نوجواں ( گلوکارہ : نسیمہ شاہین ، شاعر : حمید نسیم ،ریڈیوکراچی)
میرے وطن کے شہیدوں کے سربراہ سلام ( گلوکارہ : نجمہ نیازی،ریڈیو کراچی )
ہاں اے محافظانِ وطن جاگتے رہو ( گلوکار : ایم کلیم ، شاعر :مسرور زیدی،ریڈیو کراچی)
دن رات پٹے گا جب دشمن ( گلوکار :زواّر حسین ، شاعر :محشر بدایونی،ریڈیو کراچی )
ہم معصوم سپاہی آؤ وطن کی شان بڑھائیں ( گلوکار :اختر قریشی ، شاعر :قتیل شفائی،ریڈیو لاہور )
یہ نشاں یہ ہمارے وطن کا نشاں ( گلوکار:ایس بی جان،شاعر : صہبا اختر،ریڈیو کراچی )
جنگِ ستمبر ۱۹۶۵ء میں نغماتِ وطن اور مجاہدین کو خراجِ تحسین کا یہ سلسلہ چل نکلا اور ا س جہادِ پاکستان سے تاریخِ پاکستان میں ایک نئے ادب اور نئی طرزِموسیقی کی جہت نے جنم لیا ،حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اتنے کم عرصہ میں صرف دو ریڈیو اسٹیشنز کی طرف سے اتنی بڑی تعداد میں ترانے نشر ہوئے کہ دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اتحادی طاقتیں شعبہء جنگی ترانہ بنا کر بھی اس حد تک کامیاب نہ ہو سکیں، یقیناًافواجِ پاکستان اور جہادِ پاکستان کی برکت سے اس میں بھی تائیدِ ایزدی ہی تھی۔آج بھی ہمارے سبز گیت بن رہے ہیں اور اور تاابد بن کر تاریخ میں رقم ہوتے رہیں گے تاہم جنگِ ستمبر کے نغمات میں جوش و جذبے کی بات ہی الگ تھی ،افسوس کہ ہمارے کسی ادارے نے ان کو محفوظ نہیں کیا یا پھر انہیں غیر ضروری سمجھ کر عدم توجہی برتی گئی ،اگلے برس ہم یومِ دفاع کی گولڈن جوبلی منائیں گے تو یہ ترانے بھی اپنی تخلیق کے پچاس برس مکمل کرلیں گے ،ان میں سے بیشتر ترانے بالکل نایاب ہوچکے ہیں تاہم راقم الحروف گذشتہ ۱۵ برسوں سے صرف ذاتی شوق کی بناء پر پاکستانی قومی نغمات جمع کر رہا ہے تاکہ ہمارا یہ سرمایہ محفوظ رہ سکے۔

شائع شدہ : ہماہنامہ ’’ ہلال‘‘ خصوصی شمارہ برائے گولڈن جوبلی یومِ دفاعِ پاکستان
سرکاری ترجمان پاک فوج 




پاکستانی قومی نغمات کی واحد ویب سائٹ Only Dedicated Work on Pakistani National Songs


تخیلقِ پاکستان کے ستر سال مبارک 
پاک پیٹریاٹک لائبریری
پاکستانی قومی نغمات کی واحد ویب سائٹ جس میں پاکستانی قومی نغمات کی مکمل معلومات ہیں۔۔یہ دنیا میں کسی بھی ملک کی طرف سے قومی نغمات کے لیے مختص واحد ویب سائٹ اور بلاگ ہے،الحمداللہ یہ اعزاز سب سے پہلے پاکستان ہی کو حاصل ہوا۔۔پاکستان پائندہ باد

ابصاراحمد
( محقق و آرکائیوسٹ پاکستانی قومی نغمات )

پاک پیٹریاٹک لائبریری
رزم ہو یا بزم ہماری تہذیب میں شاعری ایک خاصہ رہی ہے،زمانے کے بدلتے ہوئے رنگ ہوں یا کوئی بھی تغیر، 
شاعروںنے ہمیشہ اسے شعروں میں سمو کر امر کردیا ہے،تاہم اس میں تعمیر اور تخریب دونوں اقسام کی شاعری آجاتی ہیں البتہ وہ الفاظ جو قوم و ملت کے لیے تخلیق ہوئے یقیناًوہ الفاظ ہیں جو قوم پر قلم کا قرض ہوتے ہیں اس طرح ایک شاعر ایک قومی شاعر بن جاتا ہے،اردو زبان میں یہ اعزاز سب سے پہلے شمس العلما علامہ شبلی نعمانی کو حاصل ہے پھر اسی صف میں الطاف حسین حالی،،ظفر الملت مولانا ظفر علی خان،رئیس الاحرارمولانا محمد علی جوہراور حکیم الامت علامہ محمد اقبال بھی شامل ہوئے اس طرح قومی شاعریپروان چڑھی  اور شاعروںمیں  وطنِ عزیز کے لیے الفاظ بکھیرنے کا جوش پیدا ہوا جو تحریکِ پاکستان میں پوری طرح سے نمایاں نظر آتا ہے جن میں میاں بشیر احمد،اصغر سودائی،سیماب اکبر آبادی،شوکت تھانوی،احمد ندیم قاسمی،مولانا ماہر القادری اوررئیس امروہوی جیسے شعرائنغماتِ وطن لکھتے ہوئے سامنے آئے۔
شعرائکے ان کلام کو اس وقت اور بھی فروغ ملتا ہے جب کوئی خوش گلو اسے ترنم میں ڈھالتے ہوئے موسیقی سے ہم آہنگ کر دے اس طرح یہ قومی نغمہ بن کر وطنِ عزیز کی فضائمیں بکھر کر عظمتِ وطن کو شاعر،گلوکار اور موسیقار کا سلام پیش کرتے ہیں،پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہقیام پاکستان سے لیکر آج تک دنیا میں سب سے زیادہ قومی نغمات پاکستان ہی میں بنے ہیں اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔تاہم افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک کو یہ اعزاز ملنے کے باوجود اس اعزاز کی قدر نہیں کی گئی اور کوئی ایسا ادارہ نہیں جو اس ریکارڈ کو محفوظ رکھ سکے۔۔!!
مجھے قومی نغمات سننے کا بچپن ہی سے شوق تھا اور پھر گذشتہ 15برسوں سے جب میں پانچویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھا اس وقت قومی و جنگی ترانے جمع کرنے مشغلہ اپنا لیا،شوق اگر جنون بن جائے انسان کی ساری راہیں آسان ہو جاتی ہیں اس طرح میں نے صرف اسی مقصد کے لیے پاکستان بھر کا سفر کر کے تقریبا تمام ہی قومی و ملی نغمات کا مجموعہ آڈیو کیسٹ گراموفون ریکارڈ ز،سی ڈیز اور ڈی وی ڈی فارمیٹ میں جمع کر لیے ہیں جن میں وہ قومی نغمات بھی ہیں جو قیامِ پاکستان کے ابتدائی دور کے ہیں جن میں نمایاں آوازیں منور سلطانہ،قادر فریدی،علی بخش ظہور اور دلشاد بیگم کی ہیں، پھر زمانہ جنگ کے وہ جنگی ترانے بھی ہیں جن کو ہمارے قومی ادارے مثلا ریڈیو پاکستان اورپاکستان ٹیلیویژن بھی فراموش کر چکے ہیں یا پھر کچھ پالیسیوں کے باعث ان کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ایک مورخ کے لیے صرف واقعات لکھنا ہی نہیں بلکہ ان کی سند اور پسِ منظر لکھنا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ ہر ادب اور فنونِ لطیفہ کا ہر شعبہ معاشرتی پسِ منظر کی عکاسی بھی کرتا ہے، چنانچہ میں اپنے طور پر پوری کوشش کرتا ہوں کہ نغمے کے ساتھ ساتھ اس کی پوری معلومات بھی رکھ سکوں۔
پاک پیٹریاٹک لائبریری اپنے اسی شوق کو فروغ دینے کے لیے گذشتہ چھ برس قبل ترتیب دی تھی تاکہ جو معلومات میرے پاس ہیں ایک  قومی فریضہ سمجھ کر آپ سب تک پہنچا سکوں،یہ ایک مکمل غیر کاروباری اور غیر مالی نافع ویب سائٹ ہے جو صرف قومی جذبے اور قومی لگن سے بنائی ہے،الحمداللہ۔۔۔!! پاک پیٹریا ٹک لائبریری اس وقت پاکستان کی طرف سے دنیا کی واحد ویب سائٹ ہے جو مکمل طور پر قومی نغمات کے لیے مختص ہو۔اس طرح پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سب سے قومی نغمات کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ کی دنیا میں بھی پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے قومی نغمات کسی بھی ویب سائٹ پر ایک ترتیب سے موجود ہوں۔
یہ ویب سائٹ زیرِ تکمیل ہے اور رہے گی کہ جب تک ہمارے فنکار قومی گیت اور ترانے نذرِ وطن کرتے رہیں گے۔اس ضمن میں،میں اپنے قومی اداروں کی توجہ چاہوں گا کہ میرے اس کام میں میری مدد کریں اور اگر قارئین میں سے کوئی کسی ایسے قومی نغمہ سے شناسا ہو جو اب تک میری دسترس میں نہیں تو مجھ سے رابطہ کریں تاکہ یہ قومی خدمت جاری رہے۔پاکستان پائندہ باد


ابصار احمد 
92-300-3520642

Monday, April 10, 2017

Patriotic Songs of Ahmed Rushdi written by Absar Ahmed


احمدرشدی ۔۔۔پاکستانی قومی نغمات کا اولین بادشاہ
( احمد رشدی کے فلمی و غیر فلمی قومی نغمات پر پہلا مکمل تحقیقی مضمون )
تحریر : ابصار احمد


یہ ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ء کا ذکر ہے جب بانیء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو دارفانی سے گذرے صرف ایک ہفتہ ہی ہوا تھا،قوم کے ذہنوں میں ابھی تک اپنے محبوب قائد و مسیحا کے لیے غم کے بادل چھائے ہوئے کہ کہ بھارت نے اپنی بھرپور جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرکزِ علم و فن اور بالخصوص مرکزِ اردو ،سلطنتِ آصفیہ حیدرآباد دکن پر حملہ کردیا،بھارتی حکومت شاید بابائے قومؒ کی وفات ہی کی منتظر تھی اس لیے اس نے حملہ کرنے میں تاخیر نہ کی،حیدرآباد دکن جس کے مسلم حکمران نے ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا،وہاں نظامِ دکن اور وزیرِ اعظم مولوی مظہر علی کامل کے زیرِ انتظام پاکستان میں شمولیت کے لیے پرچمِ حریت بھی بلند ہوا لیکن شاید حیدرآباد دکن کی مسلم ریاست کی حیثیت سے دن پورے ہوچکے تھے،انگریزوں کی روایتی بے وفائی نے حیدرآباد کو بزورطاقت بھارت کے حوالے کردیا تو کئی اہلِ علم و فن محبتِ دین اور مسلم تہذیب میں سرحد پار کرکے مملکتِ خدادِ پاکستان آنے لگے جن میں وہاں کے شیخ الحدیث اور استادِ عربی و فارسی مولانا سید منظور محمدؒ کا گھرانہ بھی شامل تھا،یہ گھرانی شروع ہی سے پاکستان کا حامی تھا یہی وجہ ہے مولاناسید منظور صاحب حیدرآباد دکن میں مسلم لیگ کے حامی بھی تھے لیکن چونکہ ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی اس لیے وہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی ایک سال وہیں مقیم رہے تاآنکہ ریاست پر بھارت کا جبری قبضہ ہوا توانہیں معہ خاندان دکن کی سرزمین کو خیرباد کہنا پڑا،اس خاندان کی منزل پاکستان کا ہجرت کدہ کراچی تھا،اسی خاندان میں ایک فرد ایسا بھی تھا جسے اس کے وال قاری بنانا چاہتے تھے مگر اس نے روایت سے ہٹ کر اسٹیج اور شوبز کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا جو اس وقت مسلمان اور بالخصوص سید ہاشمی گھرانے کے لیے انتہائی معیوب ترین بات تھی،یہ لڑکا ابتداء میں شوق کی خاطر بغاوت کرکے گھر بھی چھوڑ آیا تھا کیونکہ اس کے والد ناصرف دینی و علمی شخصیت تھے بلکہ کئی اہلِ علم جن میں مولانا مودودی صاحبؒ بھی شامل ہیں ان سے زانوئے تلمذ کیا تھا ،مگر چونکہ صلاحیت،صلاحیت ہوتی ہے اس لیے وہ لڑکا جلد اسٹیج پر نام کمانے لگا،اس کی اونچے سر کی آواز میں بھی شوخ پن تھا جو کراچی آکر مزید کھلا اور ایسا کھلا کہ اس کے گیتوں کی صدائیں آج پاکستان کی نمائندہ آوازوں میں شمار کی جاتی ہیں،یہ نام سید احمد رشدی صاحب مرحوم کا ہے جو ۲۴ اپریل ۱۹۳۴ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے اور پھر ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوکر پاکستان فلم انڈسٹری میں ایسے شامل ہوئے کہ تقریباََ ڈھائی عشروں تک انہی کی آواز کا طوطی بولتا تھا۔

احمد رشدی جو ہماری دنیائے موسیقی میں شوخ و چنچل گانوں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں لیکن باکمال گلوکار تھے،ہر صنف،ہر جہت پر ان کا گانا دل کی آواز سے نکل سامعین کے کانوں میں پہنچتا تو اس کی صدائے بازگشت دیر تک سنائی دی جاتی اور پھر وہ سننے والوں کے دلوں میں اپنے ادگار نقوش بھی چھوڑ جاتا،شوخ و چنچل سے لے کر مزاحیہ گانوں تک ہر قسم کی گائیکی پر احمد رشدی کو ملکہ حاصل تھا لیکن یہ بات بھی بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ احمد رشدی صاحب پاکستان کے ان گلوکاروں میں بھی ہوتا ہے جنہوں نے ۵۰ سے زائد قومی نغمات گائے ہیں،جو کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ایک پروفیشنل گلوکار اپنے وطن کے لیے اتنے قومی نغمات گائے۔۔۔!! یہی حیثیت احمد رشدی کو یقیناََ ہماری قومی و ملّی تاریخ میں امر کرے گی جس پر عموماََ شائقینِ موسیقی کی نگاہ یا توجہ نہیں گئی جس کی وجہ شاید قومی نغمات سے دلچسپی کا وہ معیار نہیں جو  رومانوی گانوں یا غزلوں کا ہے۔
احمد رشدی کو قومی نغمات میں کئی انفرادیت حاصل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی موسیقی کے کیریئر کا آغاز ایک نیم قومی نغمہ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ سے کیا اور ان کا آخری گیت ’’آنے والو! سنو۔۔۔میرے پیارو! سنو‘‘ بھی قومی نغمہ ہی تھا،پھر احمد رشدی کا سب سے بڑا اعزاز یہ کہ پاکستان کے سرکاری قومی ترانے میں ان کی آواز سب ذیادہ نمایاں ہے۔
احمد رشدی نے ریڈیو پاکستا کراچی سے اپنی پیشہ ورانہ گائیکی کا آغاز کیا تو سب سے پہلے بچوں کے پروگرام میں انہوں نے اس وقت پاکستان کے دارلحکومت کراچی پر مہدی ظہیر کا تحریر اور ترتیب کردہ نغمہ’’ بندر روڈ سے کیماڑی،میری چلی رے گھوڑا گاڑی‘‘ گایا ،پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے واحد ذریعے(ریڈیو پاکستان) کی توسط سے یہ نغمہ جب سامعین تک پہنچا تو ہر جگی رشدی کی دھوم مچ گئی،چونکہ کراچی اور اس کی سیر پھر اس میں قومی وقار اور دارالحکومت کی تعریف قوم ہی کے لیے ہے تو بلاشبہ یہ نغمہ قومی نغمات کی فہرست میں جگہ بنا سکتا ہے مگر پھر بھی ہم اسے نیم قومی نغمہ ہی کہہ کر مخالفین اور کٹ حجتیوں سے اپنی جان چھڑاسکتے ہیں ۔۔۔!!، بلاشبہ یہ نغمہ ناصرف مشہور و مقبول ہوا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نغمہ ریڈیو پاکستان کراچی کی پہچان بھی ہے یہی وجہ ہے کہ نصف صدی سے ذیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود یہ آج بھی تروتازہ ہے۔
۱۹۵۴ء کا سال ہمارے قومی نغمات کی تاریخ کا ایک اہم ترین سال ہے جب ہمارا سرکاری قومی ترانہ تیار ہوکر ارض وطن کی فضاؤں میں سبز رنگت لیے تحلیل ہوا،قومی ترانہ جس کے لیے شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان شہیدؒ نے ایک کمیٹی ترتیب دی تھی اس نے ۷۲۰ ترانے موصول ہونے کے بعد ابوالاثر حفیظ جالندھری کے قومی ترانے کو منظور کیا،اس کی دھن کذشتہ سال احمد علی چھاگلا صاحب نے ترتیب دی تھی جو شاہِ ایران رضا شاہ پہلی کی آمد پر سب سے پہلے بجائی گئی، اگست ۱۹۵۴ء میں قومی ترانے کی ریکارڈنگ کا کام ریڈیو پروڈیوسر ذوالفقار علی بخاری کی زیرِ نگرانی شروع ہوا تو انہوں نے ریڈیو پاکستان ہی کے اسٹاف آرٹسٹس کا چناؤ کیا جن میں احمد رشدی بھی شامل تھے،دیگر گلوکاران میں نسیمہ شاہین،نہال عبداللہ، زوار حسین،رشیدہ بیگم، خورشید بیگم،اختر وصی علی،غلام دستگیر،شمیم بانو و دیگر شامل تھے، پاکستان کا سرکاری قومی ترانہ ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا پھر بعد میں ای ایم آئی (جو ہز ماسٹر وائس کے نام سے بھی ریکارڈ بناتی تھی) نے ریکارڈ پر کمپنی اور کوئی بھی تفصیل شائع کیے بغیر اس کے ریکارڈ بنائے اور تمام گلوکاروں کو خصوصی اسناد بھی دیں۔احمد رشدی کے لیے پاکستانی قومی ترانہ گانا ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔
احمد رشدی نے ریڈیو پاکستان پر بچوں کے گیت گانے شروع کیے جن میں سے یقیناََ ایک دو قومی نغمات اور بھی ہوں گے مگر اس زمانے میں ریکارڈنگ کی ذیادہ سہولیات میسر نہیں تھیں اسی لیے ذیادہ تر گانے براہِ راست نشر ہوکر ہی فضاء میں بکھر کر محلول ہوجاتے پھر کسی کے ذہنوں کے پردے میں بھی ان کے نقش نہیں اسی لیے حتمی طور پر ہم ان کے بارے میں کہنے سے قاصر ہیں، احمد رشدی کی صاف شفاف آواز کے باعث صرف دو برسوں ہی میں وہ فلمی دنیا کا حصہ بن گئے ،ریڈیو کے اسٹاف موسیقار استاد نتھو خان نے انہیں فلمی دنیا میں متعارف کروایا جس کی وجہ وہ ہمیشہ استاد نتھو خان کے معترف اور شکر گذار رہے،پہلی فلم انوکھی کے بعد ۱۹۵۶ء ہی میں فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ان کا پہلا فلمی قومی نغمہ’’جدھر قدم بڑھائیں گے۔۔۔جدھر نظر اٹھائیں گے‘‘ بھی شامل تھا جسے بیزار سرحدی نے تحریر کیا تھا جبکہ موسیقی استاد نتھو خان صاحب ہی کی تھی،اس قومی نغمہ میں احمد رشدی کا ساتھ ماضی کے فراموش کردہ گلوکار گلستان خان نے بھی دیا تھا۔ ۲۹ مارچ ۱۹۶۳ء کو ہدایتکار منور راشد کی فلم ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں حمایت علی شاعر کا تحریر کردہ قومی نغمہ ’’ہمت سے ہر قدم اٹھانا تو ہے پاکستانی‘‘ احمد رشدی ہی کے حصہ میں آیا،جس کی موسیقی سہیل رعنا نے ترتیب دی تھی۔احمد رشدی نے اس نغمہ کو اتنی خوبصورتی سے گایا کہ یہ اس عہد کا ایک مقبول قومی نغمہ بن گیا جس میں نونہالانِ وطن کے لیے ایک سبق بھی ہے اور ایک عزم بھی کہ :
ہمت سے ہر قدم اٹھانا تو ہے پاکستانی
تجھ سے ہی یہ ملک بنے گا دنیا میں لافانی
بادل تیرے دریا تیرے ،تیری ہر وادی
ہر قیمت میں باقی رکھنا اپنی آزادی
آزادی کی خاطر جینا آزادی کی خاطر مرنا 
تیرا رکھوالا ہے اللہ،بگڑے کام بنائے مولا
بولو بچہ اللہ اللہ
اس نغمہ کے بعد ۱۸ دسمبر ۱۹۶۴ء کو فلمساز و ہدایتکار خلیل قیصر کی فلم ’’فرنگی‘‘ ریلیز ہوئی جو جذبہء حب الوطنی کے تناظر ہی میں بنائی گئی تھی ،اس فلم میں احمد رشدی نے ریاض شاہد کا تحریر کردہ نغمہ’’اے وطن اے وطن تیرے مرنے والوں کی خیر‘‘ گایا ،رشید عطرے کی طرز سازی میں یہ نغمہ دراصل آزادی کے ان شہیدوں کے نام تھا جو زندگی بنامِ وطن کرگئے،اس نغمہ میں احمد رشدی کا انداز مرثیانہ تھا اور سننے میں واقعی ایسا لگتا ہے کہ جیسے میدانِ جنگ کے بعد شہداء کے جسد اطہار کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے جنگ کے خون آلود دھوئیں کے ساتھ احمد رشدی آواز گونج رہی ہے۔
جنگِ ستمبر ہماری ملّی و قومی تاریخ کا اہم موڑ جب اٹھارا برس سے گھات لگائے غنیمِ جاں بھارت نے ۵ اور ۶ ستمبر کی درمیانی شب صبحِ کاذب کے وقت ارضِ پاکستان پر حملہ کردیا،یہ پاکستان کی چھوٹی سی نوجوان ریاست کے لیے ایک مرحلہ اورآزمائش  کی گھڑی تھی،اس موقع پر پاک فوج کے ساتھ پوری قوم میدانِ عمل میں نکل آئی ،سخنوروں،مطربوں اور موسیقاروں نے بھی اس جنگ میں بھرپور حصہ لیا کہ وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک عظیم باب ہے،احمد رشدی جو ان دنوں کراچی میں ہی مقیم تھے دیگر فنکاروں کی طرح ریڈیو پاکستان کراچی جاپہنچے اور انہوں نے شاعروں کا کلام خوبصورت اور زرمیہ موسیقی کے ساتھ اس ناداز سے گایا کہ ہر ہر نغمہ ان کے دل کی آواز ثابت ہوا، جنگِ ستمبر میں ان کا پہلا نغمہ کشمیری حریت پسندوں کو خراجِ تحسین تھا جو کورس کی شکل میں گایا، عاشور کاظمی کے تحریر کردہ اس کلام کی موسیقی استاد نتھو خان نے ترتیب دی تھی ، نغمہ کو بول کشمیر میں جلتے چناروں کو پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ’’اے وادیء کشمیر۔۔۔اے وادیء کشمیر‘‘ ،اس نغمہ میں احمد رشدی کے ساتھ تاج ملتانی،عشرت جہاں،نگہت سیما اور نسیمہ شاہین شامل تھے۔ ۸ستمبر کو پاک بحریہ نے بھارت کا سب سے اہم اور مضبوط بحری مستقر دوارکا کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو ۹ ستمبر کی صبح ہی استاد نتھو خان کی موسیقی میں جون ایلیا کا تحریر کردہ نغمہ احمد رشدی اور نگہت سیما کی آواز میں پاک بحریہ کو پہلا خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
’’فرمانروائے بحرِ عرب پاک بحریہ
بھارت میں تیرا نام ہے بے باک بحریہ‘‘
یہ سبز گیت اتنا دلکش اور جذبہء حب الوطنی سے پر ہے کہ سننے والا پاک بحریہ کے ان عظیم غازیوں کو دل سے سلام کیے بغیر نہیں رہ سکتا،نگہت سیما نے بھی اس نغمہ میں خوبصورت آواز کا جادو جگایا،واضح رہے کہ یہ نغمہ پاک بحریہ پر بننے والا سب سے پہلا قومی نغمہ ہے اس طرح احمد رشدی قومی نغمات کی ایک جہت میں سبقت لے گئے !، پاک فوج سرحدوں کی حفاظت میں مصروفِ عمل تھی کہ اس کا ہر سپاہی عقیدت کی نگاہوں سے دیکھا جاتاجہاں بھی کوئی سپاہی گذرتا لوگ عقیدت سے اس پر گل پاشی کرتے ،ہر نگاہوں اور دلوں میں ہر سپاہی کے لیے دعائیں امڈ آتیں ،اسی جذبے کے مدِ نظر احمد رشدی نے قتیل شفائی کا تحریر کردہ نغمہ 
’’اے وطن کے جوانو!سلامت رہو،سلامت رہو
میں تمہارا مغنی تمہارے لیے،دل و جان سے کررہا ہوں دعا‘‘
گایا تو ہر زبان پر فوراََ ہی اس کا چرچہ ہوگیا،اسی طرح احمد رشدی کے ایک اور سبز گیت’’ہم ارضِ مقدس کے جری شیر جواں ہیں،ہم فخرِ جہاں فخرِ جہاں ہیں‘‘ کو بھی جنگ کے دوران مقبولیت ملی۔
جنگِ ستمبر میں غنیمِ جاں بھارت نے ارضِ پاک کے دو شہروں لاہور اور سیالکوٹ کو براہِ راست نشانہ بنایاتھا ،بلکہ بھارتی اخبارات اور اس کے ہمنوا مغربی میڈیا نے بھی لاہور کی فتح کی خبریں نشر کرنا شروع کردی تھیں کیونکہ ٹڈی دل بھارتی لاؤ لشکر کے سامنے لاہور کا فتح ہونا ایک معمولی سی بات لگتی تھی لیکن مشیتِ ایزدی کے باعث حقیقت کچھ اور ثابت ہوئی کہ راوی کی لہروں نے بھارتی فوج کو انہی کا لہو پلایا ،پاک سرزمیں کے غازیوں نے بھارتی فوج کے ہاتھوں لاہور کی فتح تو درکنار بی آربی نہر بھی عبور کرنے نہ دی،یہ جذبہ اسلامی غیرت اور حب الوطنی کا وہ اہم واقعہ ہے جس پر بہت سے شعراء نے خراجِ عقدیت کے لیے بہت کچھ تحریر کیا، رئیس امروہوی کے بھائی جون ایلیا نے بھی لاہور پر ایک خوبصورت کلام لکھا جس کو احمد رشدی نے نتھو خان کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا تو ہر سامعی کو اس نے ناصرف متوجہ کیا بلکہ دشمن کو بھی بتادیا کہ
’لاہور سربلند ہے لاہور زندہ باد ۔۔۔لاہور فتحمند ہے لاہور زندہ باد
لاہور تو ہے عظمتِ پائندہ زندہ باد‘‘
لاہور کا نغمہء فاتحانہ جون ایلیا کو خود بھی بے حد پسند تھا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں میرا لاہور جانا ہوا تو ہر جگہ میرے اسی نغمہ کی دھوم نے میری محنت وصول کروادی تھی۔
لاہور کی دفاعی لائن سے تنگ آکر بھارت نے اپنی توپوں کا رخ ارضِ سیالکوٹ کی جانب کیا،جہاں چونڈہ کے میدان میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی بھی سامنے آئی،مگر بھارت نے یہاں بھی منہ کی کھائی،سیالکوٹ کے نشانِ جلال پر بھی ہمارے سخنوروں نے بہت کچھ لکھا،جناب حمید نسیم مرحوم کا تحریر کردہ نغمہ 
’’تجھ سے تابندہ ہے دینِ محمدﷺ کی آبرو
سیالکوٹ حرمِ مرتبت ہے تو‘‘
احمد رشدی اور ساتھیوں نے ۱۸ ستمبر کو کراچی ریڈیو پر ریکارڈ کروایا،اس نغمہ کے موسیقار رفیق غزنوی تھے۔
سابق دارلحکومت اور شہرِ قائدؒ کراچی جس کو بھی بھارت نے اپنی فضائیہ کے ساتھ جارحیت کا نشانہ بنایا تھا یہ شہر بھی استقامت کی زندہ دلیل بن گیا،رئیس امروہوی نے کراچی کی استقامت پر بھی ایک خوبصورت اور جوشیلا قومی ترانہ’’اے کراچی مرحبا۔۔۔اے کراچی مرحبا‘‘ لکھا تو احمد نے رشدی ہی نے اس کو اپنی اونچے  سر اورجوشیلی آواز میں امر کردیا،جنگِ ستمبر کا یہ سبز نغمہ جنگِ ۷۱ء میں اور بھی ذیادہ مقبول ہوا جب بھارت یہاں وقفے وقفے سے فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔
کلامِ اقبالؒ جس میں حکیم الامت نے ملتِ اسلامیہ کو پیغامِ حریت لے کر پیغامِ تصوف تک دیا ہے،ہماری قومی شاعری کا نمایاں حصہ ہے ،اقبالؒ کی غزل ہویا نظن تمام تر ملّی پیغام سے تعبیر ہے،جہادِ فی سبیل اللہ پر بھی اقبالؒ نے خوب اشعار کہے تھے،یہ نظمیں جنگِ ستمبر میں اور بھی کارآمد محسوس ہونا شروع ہوئیں تو گلوکاروں نے اس کو ترنم میں ڈھال کر ترانوں کی شکل بھی دی،احمد رشدی کے حصے میں دو کلامِ اقبالؒ آئے جن میں ’’ضربِ کلیم‘‘ سے منتخب کلام ’’مرد مسلماں‘‘ احمد رشدی نے ساتھیوں کے ساتھ بے حد جوشیلے انداز میں پڑھاکہ واقعی ’[ہر لحطہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘‘ ہے ۔اسی طرح احمد رشدی کا دوسرا کلامِ اقبالؒ ’’آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش ۔۔۔اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی‘‘ بھی رزمیہ آہنگ سے معمور تھا۔
ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر جناب سلیم گیلانی مرحوم کا تحریر کردہ نغمہ’’ہم گھبرو پاکستان کے،ہم شیروں کے سردار۔۔۔ہمیں دیکھ کہ دشمن بھاگیں جیسے بھیڑین بیچ بازار‘‘ بھی احمد رشدی کی آواز میں ایک پرجوش جنگی ترانہ تھا۔
جنگِ ستمبر کے جہادِ پاکستان میں پاک فوج کو روزانہ ایک قرآنی آیت Sword of the Day کے طور پر پیش کی جاتی جو لشکرِ اسلام کی وضاحت کرتی ہے، شاید اسی تناظر میں شعراء نے قرآنی آیات کو بھی اپنے رزمیہ ترانوں کا حصہ بنایا، ’’حسبنااللہ و نعم الوکیل۔۔۔اپنا حامی ہے رب جلیل‘‘ اور ’’نصرمن اللہ و فتح قریب۔۔۔اپنا نگہباں خدا کا حبیب ﷺ‘‘ قرآنی آیات سے سجے دو عسکری نغمات تھے جنہیں احمد رشدی نے گایا، نصیر ترابی کے تحریر کردہ پہلے نغمہ میں قرآنی آیتِ کریمہ کے ادب کے طور پر صرف اسی حصہ میں سازینے روک دیے گئے،اور جیسے ہی قرآنی آیت کا حصہ ختم ہوتا تو سازینے اٹھتے،یہ ایک منفرد انداز تھا اور جو اسلامی تقدس کو بھی ظاہر کرتا ہے،دوسرے نغمہ میں قرآنی آیت سے ’’ و ‘‘ کا حرف نکال دیا گیا تو وہ خالصتاََ قرآنی آیت نہیں رہی اسی لیے اس پورے نغمہ میں موسیقی شامل ہے۔ آخرالذکر ترانہ بھی جنگِ ۷۱ء میں مقبول رہا جس کو ضیاء جالندھری نے تحریر کیا جکہ موسیقی مظہر وکٹر کی تھی۔
جنگِ ستمبر کے دوران پاکستانی قومی نغمات میں اپنے عظیم مجاہدوں کو انفرادی طور پر بھی خراجِ تحسین و عقیدت پیش کرنے کی جہت کا آغاز ہوا تو شعراء نے میجر عزیز بھٹی شہیدؒ ، میجر عباسی شہید، میجر خادم حسین شہید وغیرہ پر اپنے قلم کی جولانیاں دکھائیں،جناب مظفر وارثی مرحوم نے پاک فضائیہ کے عظیم مجاہد اور غازی ایم ایم عالمؒ پر بہت خوبصورت کلام تحریر کیا جو ان کی شخصیت پر شائع شدہ واحد کلام بھی تھا ،احمد رشدی نے غازی ایم ایم عالم (جنہوں نے ۳۰ سیکنڈ میں پانچ بھارتی طیارے زمیں بوس کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا ) پر مظفر وارثی کا لکھا نغمہ گانے کا اعزاز حاصل کیا تو وہ بھی اس عظیم ہیرو کو واحد خراجِ تحسین پیش کرنے والے منفرد گلوکار ٹھہرے ۔۔۔!!۲۰ ستمبر ۱۹۶۵ء کو ریڈیو سے نشر ہونے والے اس نغمہ کے بول کچھ یوں تھے :
ناز ہے پاکستان کو تجھ پر اے مشرق کے لال
اے شیر بنگال۔۔۔
راہ بنی قدموں کی تیرے کہکشاں سیارے
آدھے منٹ میں گرائے تو نے پانچ پانچ طیارے
دنیا پکاری عالم تو ہے اپنی آپ مثال
اے شیر بنگال۔۔۔
راقم الحروف نے یہ نغمہ اپنے عظیم مجاہد ایم ایم عالم کو سنایا تو وہ بھی اشکبار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ ’’اللہ شاعر اور مطرب اور دونوں ہی کو جنت میں جگہ عطاء فرمائے جنہوں نے میرے اسلام کے لیے کارنامہ کو نغمہ کی صورت میں بھی محفوط کیا‘‘۔
وطن کے شاعروں اور فنکاروں کا بھارت کو جواب بھی احمد رشدی نے رئیس امروہوی کے الفاظ میں بشکلِ ترانہ یوں دیا کہ

’’سرکشی ہے جنگ آمادہ تو پھر یوں ہی سہی

خوں اگر مضموں کی سرخی ہے تو پھر خوں ہی سہی

فکر کو انداز کا لہجہ بدلنا ہی پڑا
آج ہم شیریں لبوں کو زہر اگلنا ہی پرا‘‘

نصیر ترابی صاحب کا ترانہ ’’میری سرحد کو میرا میرا لہو چاہئے ۔۔۔میرے کھیتوں کو میری نمو چاہیے‘‘ بھی احمد رشدی کی آواز میں ایک یادگار اور پر فکر نغمہء وطن ہے جس کی طرز سازی لعل محمد نے کی۔اسی طرح ’’اے ارضِ وطن تیرے جواں تیرے دلاور ۔۔۔میدان میں نکلیں ہیں کفن باندھ کے سر پر ‘‘ بھی محاذ پر صف آراء فوجی جوانوں کے دلوں میں ملّی جذبات ابھارتا رہا۔

احمد رشدی جو فلم انڈسٹری میں شوخ و چنچل اور مزاحیہ گانوں کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے ان کی شخصیت کو دیکھ کر ہی شاید ہمارے قومی نغمات میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا کہ دشمنِ وطن بھارت پر طنزیہ نغمات بھی بننے لگے ،احمد رشدی نے جنگِ ستمبر کے موقع ۳ طنزیہ قومی نغمات گائے،جو مزاح کے ساتھ ساتھ حقیقت کی ترجمانی بھی کرتے ہیں، سلیم گیلانی کا تحریر کردہ نغمہ’’ لالا جی جان دیو لڑنا کی جانو تسی مرلی بجاون والیو گل تہاڈی وسدی نئیں‘‘ احمد رشدی کا پہلا مزاح سے بھرپور قومی نغمہ ہے جس میں بھارتی ننکو وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کو لالا جی کہہ کر جنگ میں ہندوستان کا آئینہ دکھایا گیا ہے،یہ احمد رشدی کا پہلا پنجابی قومی گیت بھی تھا،اس نغمہ کی موسیقی کے خالق استاد نتھو خان تھے جبکہ کورس میں نسیمہ شاہین کی آواز نمایاں ہے، اسی طرح لعل محمد کی موسیقی میں سلیم گیلانی ہی کا تحریر کردہ نغمہ’’ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔۔۔ہم اگرعرض کریں گے تو شکایت ہوگی‘‘ ایکبھارتی فلمی گانے کی پیروڈی ہے جو قوالیہ انداز میں احمدرشدی اور ہمنواؤں نے خوبصورتی سے گایا ہے، اس سبز گیت میں احمد رشدی اپنے روایتی شوخ و چنچل انداز میں نظر آتے ہوئے ’’ر‘‘ پر زور دیتے ہیں کہ

’’کھل گئیں آنکھیں مسلمانوں سے لئے کر ٹکر (رررررر )
بھارتی سینا کو آنے لگے پیہم چکر (رررر) ‘‘
نیز اس نغمہ میں احمد رشدی نے گانے کے ساتھ ساتھ تخاطبی انداز اختیار کیا ہے جو قدیم قوالی میں ہوتا تھا کہ سننے والا اسے اشعار نہیں بلکہ خطاب کے طور پر لے کر متوجہ بھی رہتا ، یہی احمد رشدی کاکمال ہے۔اصغر حسین کا تحریر کردہ تیسرا طنزیہ قومی نغمہ ’’ دوڑیو باپو بھارت دیش کی ہوگئی جگت ہنسائی۔۔۔دوڑیو چاچا اب تو مچ گئی گھر گھر رام دہائی‘‘ بھی جنگِ ستمبر میں بھارت کی حقیقت بتانے والا ایک خوبصورت اور یادگار نغمہ ہے ،اس طرح احمد رشدی قومی نغمات کی اس جہت میں بھی سبقت لے گئے !!
۱۷ دن توپ و تفنگ کی گھن گھرج کے بعد جنگ بند ہو تو گئی مگر عسکری ترانوں کا سلسلہ جاری رہا جو آج بھی جاری ہے،پہلی بار قوم نے غازیانہ کارناموں کی نغمات کی صورت میں اہمیت جانی، اس کا واضح اثر جنگِ ۷۱ ء تک ذیادہ نظر آتا ہے کہ ہر قومی نغمہ جہاد و مجاہد کا ترجمان تھا۔
جنگ کے بعد ۷۱ء تک احمد رشدی نے ریڈیو پاکستان سے یہ قومی نغمات ریکارڈ کروائے :
(ساتھیو ! سبز پرچم اراتے چلو زندگی کے ترانے سناتے چلو ( معہ سلیم رضا ، شاعر : حمایت علی شاعر،موسیقی : خلیل احمد
(سوئے منزل چلے اور بہ یک دل چلے آج سب من چلے ( معہ سلیم رضا ، شاعر : حمایت علی شاعر، موسیقی : خلیل احمد 
(ہماراسبز پرچم ہے ہلالی جھک نہیں سکتا ( معہ ہمنوا 
(میرا پیغام پاکستان ( شاعر : جمیل الدین عالی، موسیقی : نذر حسین 
(یہ وطن یہ چمن اس پر سب کچھ فدا اپنا تن اپنا من ( شاعر :حمید نسیم 
رشکِ خلدِ بریں ہے وطن کی زمیں
اس کے علاوہ پاک فوج نے مارچ پاسٹ  کے لیے ایک نغمہ ’’ہم ہیں تیغِ حیدریؓ ہماری ضرب سے ڈرو‘‘ بنایا تو اس میں بھی احمد رشدی کو شامل کیا گیا۔
جنگِ ستمبر کے بعد فلم انڈسٹری نے جہادِ پاکستان کے موضوع پر بھی فلمیں بنانا شروع کیں تو اس میں بھی جنگی و قومی ترانوں کی شمولیت ناگزیر تھی،۲۴ جنوری ۱۹۶۶ء کو فلمساز نیازی ملک کی فلم آزادی یا موت ریلیز ہوئی تو اس کا ٹائٹل ترانہ احمد رشدی ہی کی آواز میں تھا کہ’’ شیروں کا وہ نعرہ گونجا آزادی یا موت۔۔۔ حبِ وطن کا شعلہ جاگا آزادی یا موت‘‘ لعل محمداقبال کی موسیقی سے سجا صہبا اختر کا یہ ترانہ احمد رشدی نے جنگ کے دوران ریڈیو پر ہی ریکارڈ کروایا تھا مگر فلم میں شامل ہونے بعد ذیادہ مقبول ہوا تاہم جنگِ ستمبر کی یادگار فوٹیجز سے بھرپور یہ فلم ہٹ نہ ہوسکی !
فلمساز فاضلانی کی فلم استادوں کے استاد جو ۴ اگست ۱۹۶۷ء کو ریلیز ہوئی اس ا میں عاجز فریدی کا تحریر کردہ بچوں کے لیے قومی نغمہ ’’ الف سے اللہ ب بسم اللہ پ سے پاکستان ‘‘جس کی موسیقی غلام علی نے دی تھی احمد رشدی نے گایا۔ اسی طرز پر ایک اور قومی نغمہ مسرور زیدی کے الفاظ اور نذر صابر کی موسیقی کے ساتھ۱۹۶۹ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’السلام علیکم ‘‘ میں بھی ہے جس کے بول کچھ یوں ہیں 

’’ الف سے اپنا ب سے پہتر پ سے پاکستان

پاکستان کی خاطر بچوں جان و دل قربان‘‘

بچوں کے لیے ایک اور قومی نغمہ جس میں عسکری رنگ غالب ہے فلم ’’شکوہ نہ کر ‘‘ میں بھی شامل ہے لیکن یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی،اس فلم میں احمد رشدی،نسیمہ شاہیں کے ساتھ قوم کے نونہالوں کو پیغام دیتے ہیں کہ 

’’وطن کے لال نونہال مسکرا کے چل۔۔۔تو وقت سپاہی سے قدم ملا کے چل‘‘

۱۹۶۸ء فلم تاج محل میں بھی وطنِ عزیز کی خوشیوں پر احمد رشدی کے ساتھ نجمہ نیازی اور آئرین پروین کا ایک نغمہ’’آیا خوشیوں کا رنگین زمانہ‘‘ شامل تھا جس میں پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتیں اپنی خوشحالی کے گیت گاتی ہیں،کلیم عثمانی کے تحریر کردہ اس نغمہ کو جناب نثار بزمی طرز میں ڈھالا تھا۔
فلم آنکھ اور خون جو ریلیز نہ ہوسکی اس میں بھی احمد رشدی نے ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ کا تسلسل ’’پاکستان میں کراچی جیسے پان میں الائچی۔۔۔گانا سن تو گاڑی بان کا‘‘ گایا اور کیماڑی پہنچانے کی بجائے اب انہوں نے سامعین کو میری ویدر ٹاور سے گھماکر کلفٹن پہنچا دیا ۔

مشرقی پاکستان کے فلمساز احتشام کی فلم نادان جو ۱۵ اگست ۱۹۶۹ء کو ریلیز ہوئی ،اس میں احمد رشدی اور ساتھیوں نے پہلی بار پاک وطن کے دہقانوں کی قومی اہمیت قومی نغمہ میں بتائی،

دھان بوئیں دھان جھک جھک کسان
ہاتھوں میں ہل دل میں قرآن
یہ منفرد قومی نغمہ جناباختر یوسف نے لکھا جبکہ اس کی موسیقی علی حسین نے ترتیب دی،اس نغمہ کو اداکار ندیم پر فلمایا گیا تھا۔محنت کش ،ہاری، مزدور، ماہی گیر چونکہ وطنِ پاک کی ترقی کا ضامن ہوتے ہیں اور ملکی تجارت کا اہم حصہ ہوتے ہیں اسی لیے ان پر بنائے گئے نغمات جن میں قومی جذبہ شامل ہو قومی نغمات ہی کہلاتے ہیں،فلم اناڑی سے قبل وحید مراد کی فلم ’’سمندر‘‘ میں بھی احمد رشدی نے دیبو بھٹ اچاریہ کی موسیقی میں ’’تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر ‘‘ گایا تو وہ نغمہ فوجی نغمات کی طرح ہٹ ہوا،اس طرح ہمارے قومی نغمات میں محنت کشوں کے لیے خصوصی نغمات کا بھی آغاز ہوا جس کے اثرات ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ذیادہ نظر آتے ہیں۔
۱۹۷۰ء میں فلمساز شیخ عبدالرشید اور ہدایتکار جمیل اختر کی فلم’’لو انِ یورپ‘‘ بنی مگر وہ پردہٗ سیمیں پر نہ آسکی تاہم اس کے ریکارڈ ضرور بنے جس میں احمد رشدی کے مسعود رانا کے ساتھ دو قومی نغمات 
سن لے دنیا یہ للکار،ہم ہیں پھول کبھی تلوار
ہم سارا یورپ گھومے،لندن کی گلیاں دیکھیں ،ساری رنگ رلیاں دیکھیں
شامل تھے، ان نغمات کو جناب تنویر نقوی نے تحریر کیا جبکہ موسیقی منظور اشرف کی تھی۔
جنوری ۱۹۷۲ء میں انہی فلمساز اور ہدایتکار کی پنجابی فلم’’جاپانی گڈی‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں بھی احمد رشدی نے دو نغماتِ وطن گائے جو کچھ اس طرح تھے :
نئیں ریساں پاکستان دیاں 
میم بلیے پاکستان چلیے 
یہ دونوں نغمات نیم قومی نغمات تھے جن میں ایک جاپانی خاتون کو پاکستان کی بابت بتایا جاتا ہے،موخر الذکر نغمہ میں پاکستان کے شہر کراچی،لاہور،پشاور اور ڈھاکہ کی ثقافت بھی بتائی گئی ہے۔ یہ نغمات بھی تنویر نقوی اور ماسٹر منظور اشرف ہی کی شاعری اور موسیقی سے سجے تھے۔
۷۰ء کی دہائی ارض پاکستان کے لیے بے حد نحس ثابت ہوئی جب ہمارا مشرقی بازو سازشون کے تحت ہم سے جدا ہوگیا جس کا دکھ آج بھی ہر پاکستانی کو ہے، جنگِ ستمبر کا زخم کھائے بیٹھے غنیمِ جاں بھارت نے ۶ سال بعد پھر مملکتِ خدادادِ پاکستان پر ناپاک عزائم کے ساتھ حملہ کیا تو ایک بار پھر قوم متحد تھی،عوام مین وہی جذبات تھے مگر حکمران اب وطن دوست نہیں بلکہ وطن دشمنوں کی طرح نظر آتے تھے جن کی کوتایہوں سے عظیم سانحہ رونما ہوا جو ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا محسوس ہوتا ہے،تاہم پاک فوج ،عوام اور فنکاروں سب ہی نے وطنِ پاک کی محبت میں اسی جذبے کو تیازہ کیا،ااو ایک بار پھر عسکری و قومی ترانے ملک کی فضاؤں میں بکھرنے لگے۔احمد رشدی جو ان دنوں بھی کراچی میں مقیم تھے وطنِ عزیز کی خدمت کے لیے فوراََ ریڈیو پاکستان پہنچے اور قومی نغمات ریکارڈ کروائے،سب سے پہلا نغمہ انہوں نے ’’میداں میں نکلے شیرانِ حیدرؓ ۔۔۔ہاتھوں میں تسبیح تکبیر لب پر،اللہ اکبر اللہ اکبر ‘‘ ریکارڈ کروایاجسے سلیم گیلانی نے تحریر کیا تھا،میدانِ کارزار مشرقی اور مغربی پاکستان میں گرم تھا اسی لیے ترانوں میں گھمسان کی لڑائی میں پاک مجاہدین کے لیے احمد رشدی ترانوں کی شکل میں یوں کہتے نظر آتے ہیں
میداں لہو لہو ہے فضاء لالہ رنگ ہے،یہ حق کی جنگ ہے یہ حق کی جنگ ہے‘‘ ( یہ نغمہ ستمبر ۵۶ میں بھی احمد رشدی ہی نے گایا تھا’’
"جنگ ہے،جنگ ہے، جنگ ہے"
 ’’ یہ فیصلہ ہے ہمارا کہ اب سرِ میداں شرارِ قوتِ باطل بجھا دیا جائے‘‘ (شاعر : رئیس فروغ )
شہدائے پاکستان کے لیے احمد رشدی ضیاء جالندھری کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر پرسوز آواز میں کہتے ہیں کہ
’’اے خدائے ذوالجلال،تیرے حکم سے تیرے شہید لازوال‘‘
اس نغمہ میں حمد رشدی کی آواز بھری ہوئی ہے جو سننے والے واضح محسوس کرسکتے ہیں، یہ نغمہ محشر بدایونی کے قلم کا شاہکار ہے جبکہ مظہر وکٹر نے اسے نغمہ کے قالب میں ڈھالا
مشرقی پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احمد رشدی اور بشیر احمد نے دو ترانے
’سلام اے ڈھاکا و چاٹگام کے غازی نگہبانو! سلام اے سلہٹ و جیسور کی مضبوط دیوارو!‘‘ ( معہ بشیر احمد ،شاعر : مظفر وارثی ، موسیقار : لعل محمد )
اور ’’ یہ دیس ہے بنگال ہمارا‘‘ (معہ بشیر احمد ، شاعر :ابو سعید قریشی، موسیقی : لعل محمد )
بھی ریکارڈ کروائے جو ہمارے سابق حصے کی ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے۔
جنگِ ۷۱ء میں جو ہوا سو ہوا ، قوم ایک بار پھر میدانِ عمل میں آچکی تھی جو دراصل زندہ قوم کی نشانی ہوتی ہے،مگر اب تھوڑا انداز بدلہ اب محنت کش اور مزدور سب ہی اس جذبے کے ساتھ کھیت اور مشینیں سنبھال رہے تھے کہ ہمیں جنگ کارخانوں اور کھلیانوں میں لڑنی ہے،اسی لیے قومی نغمات میں یہ عہد اور جذبہ واضح ہونے لگا، پہلے صرف پاک فوج کے مجاہدین پرہی نغمات بن رہے تھے اب مزدوروں اور ہاریوں پر بھی بننے لگے، ان قومی نغمات کو سلیم گیلانی صاحب نے روشنی کے گیت کا نام دیا،احمد رشدی جنہوں نے سقوطِ دکن بھی دیکھا تھا وہ سقوطِ ڈھاکہ سے ضرور رنجیدہ ہوئے ہوں گے،اس لیے انہوں نے نئے دور میں بھی اپنا صوتی اور سنگیتی محاذ سنبھالا اور یہ سبز نغمات نذرِ وطن کیے 
(مل کر تیز چلاؤ پہیے اور بڑھے جھنکار ( شاعر : سلیم گیلانی ، موسیقی : مہدی ظہیر 
(میرے ملک و ملت کے محنت کشو! ( شاعر : سلیم گیلانی ، موسیقی:مہدی ظہیر 
اپنے گھر کی چاروں جانب خوشبو کی دیوا بنانا 
زمیں پہ چاند تارہ بن کے دنیا جگمگا دیں گے
ماں کی گود وطن کی دھرتی اس دھرتی سے پیار کرو
احمد رشدی نے ۷۰ کی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے ۳ قومی نغمات بھی گائے جو آج تک مقبول ہیں۔ فلم دشمن میں ’’اپنی محنت اپنے بازو سوہنی دھرتی کے نام‘‘ احمد رشدی نے روبینہ بدر کے ساتھ گایا، فلم’’نادان‘‘ جو ۲۲ فروری ۷۳ء کو ریلیز ہوئی اس میں ایک انوکھا قومی نغمہ’’ سدا سہاگن اپنی دھرتی سو سو چھب دکھلائے،اپنی دھرتی پہ بھیا بہار آئے‘‘ جسے دکھی پریم نگری نے لکھ کر لعل محمد اقبال کی موسیقی کے حوالے کیا ،احمد رشدی نے بے حد خوبصورت انداز میں گایا۔جون ۱۹۷۲ء کو فلمساز سعود کمال کی فلم ’’آخری حملہ‘‘ میں ایک دعائیہ قومی نغمہ ’’اللہ میرے کریو کرم کا پھیرا ‘‘ جس کی طرز نگاری لعل محمد اقبال کی تھی احمد رشدی کی آواز میں ایک ہاری کے دل کی عکاسی کرتا ہے، اسی طرح فلم ’’آئینہ اور صورت ‘‘ جو ۲۸ جون ۱۹۷۴ء کو ریلیز ہوئی اس میں بھی احمد رشدی نے رونا لیلیٰ کے ساتھ پوربی زبان میں ایک منفرد قومی نغمہ’’ پاک وطن کی دھرتی پیاری ہمکا اپنی جان سے پیاری ،ہو پھول گلبوا جیسے ‘‘گایا جو اس شوخ گلوکار کی آواز او ر انداز کی بدولت بہت مقبول ہوا۔
احمد رشدی فلمی گیتوں کے ساتھ ساتھ قومی نغمات کے ایک باکمال قومی گلوکار تھے جن کو یہ اعزازحاصل تھا کہ انہوں نے سب سے ذیادہ قومی نغمات نذرِ وطن کیے ہیں تاہم اب یہ ریکارڈ فی الحال غلام عباس کے پاس ہے،لیکن احمد رشدی کو یہ اولیت ہمیشہ حاصل رہے گی کہ سب سے پہلے انہوں نے ہی قومی نغمات کا نصف سینکڑا پورا کیا۔
سید احمد رشدی جنہوں نے ۱۹۵۴ء میں ریڈیو پاکستان سے ہی اپنی پیشہورانی گلوکاری کا آغاز کیا تھا آخر میں گلے کے کینسر کے باعث جب فلم انڈسٹری سے کنارہ کش ہوگئے تو طبیعت  سنبھلنےکے بعد ایک بار پھر ریڈیو کا رخ کیا جہاں وہی مائیکروفون ان کا منتظر تھا، اب کی بار انہوں نے قومی نغمات ہی کو اپنی شناخت کے طور پر منوالیا اور انہوں نے پاک فوج کے لیے نغمہ’’اپنی فوج کی دیکھو شان‘‘ ریکارڈ کروایا جو جو جنرل ضیاء الحق شہید کے دور میں پریڈ کے بعد ریڈیو سے نشر ہوتا تھا،احمد رشدی نے قومی نغمہ کے ذریعے ہی اپنی گلوکاری کا آغاز کیا تھا، لہذا وہ اب ایک ایسا قومی نغمہ ریکارڈ کروانا چاہتے تھے جو ہر پاکستانی کے دل میں پیغامِ احمد رشدی ثابت ہو،پروفیسر آذر حفیظ جو ان کے دوست تھے ملنے آئے تو انہوں نے اپنا کلام دکھایا احمد رشدی پہلے اس کلام کو لے کر پی ٹی وی گئے جہاں پالیسی کے بہانے کی نذر ہوا تو وہ ریڈیو آگئے اور اگست ۱۹۸۲ء میں اپنے کیریئر کا آخری نغمہ جو قومی نغمہ ہی تھا ریکارڈ کروایا ،سننے والوں نے سنا تو وہ بھی اشکبار ہوئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ یہ صرف نغمہ نہیں بلکہ ایک عظیم فنکار کے دل کی آواز تھا جو نسلِ آئندہ کو اپنا پیگام دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ
’’آنے والو! سنو میرے پیارو! سنو 
ہم نہ ہوں گے مگر ہوگی روحِ سفر
چٹاں خونچکاں ظلم کی داستاں 
کتنی قربانیاں دے کر حاصل ہوئی
وطن کی زمین اب جو منزل ہوئی 
میرے پیارو ! سنو تم بھلانا نہیں
جو ملا ہم کو فن ،کرکے نذرِ وطن 
اپنی آواز سے رس بھرے ساز سے
ہے دلوں کی خوشی،آنکھ کو روشنی
ہم اسی کے لیے جان لٹاتے رہے
گیت گاتے رہے
اس سے الفت کرو،تم بھی خدمت کرو
ہم نہ ہوں گے مگر ہو گی روحِ سفر‘‘
یہ نغمہ احمد رشدی کا آکری نغمہ ثابت ہوا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے گلوکار کو اپنی زندگی کا خود اندازہ ہوچکا تھا، چنانچہ ۱۱ اپریل ۱۹۸۳ء کو پاکستان کا یہ عظیم فنکار اپنا پیغام دے کر ہم سے جدا ہوگیا لیکن اس کی آواز اور قوم کے لیے نغمات کی شکل میں پر خلوص پیغامات اور حوصلہ مندی کے جذبات ہمیشہ پاک وطن کی فضاؤں میں گونتے رہیں گے، احمد رشدی مرحوم نے قومی نغمات کی ہر جہت یعنی پاک فوج،بحریہ،کشیر،پرچم،کلامِ اقبال، محنت کشی،حوصلہ مندی،زمین اور مٹی سب ہی پر قومی نغمات گاگر منفرد اعزاز حاصل کیا۔قومی نغموں کی تعداد اوران کی تاثیر دیکھ کر ہم بلاشبہ احمد رشدی کو پاکستانی قومی نغمات کا پہلا بادشاہ کہہ سکتے ہیں، جب تک پاکستان اور پاکستانی موسیقی باقی ہے قومی نغمات کے ضمن میں اس کثیر الجہتی گلوکار کا نام ہمیشہ تاباں رہے گا۔

Saturday, February 11, 2017

Naam Mera Jammu Kashmir- New Kashmir Freedom Song 2017 ( Written by Absa...





My Written Song for Kashmir

"Naam Mera Jammu Kashmir"

Singer : Arif Ansari

Poet : Absar Ahmed

Music : Fahad Abbas

Project Director : A.A.Fareedi

NewsPakistan.TV Project with BBC 

www.newspakistan.tv




Monday, October 24, 2016

Our Video Collection ( New Patriotic Songs from Our Video Collection )

Pak Patriotic Library

Video Channel
Our Video Collection of YouTube


Mere Watan Yeh Aqeedaten Yeh Pyar by Hammad Ai ( Children ) 2016


Hum Dushman ko Mitanay Aakhir Had Tak Jayen ge ( ISPR )

Hum Laye hain Tufan se Kashti Nikal ke by Aqsa Abdul Haq

I Love My Pakistan by Tahir Bilal & Khleeqa Raaj

Allah Hoo by Rizwan-ul-haq ( Pakistan Air Force Song )

Maul by Shehzad Roy ( ASF Song )

Uchiyaan Nishana Teriyan by Shehzad Roy

Pechan by Azeem Khan

Mai bhi Hoon Pakistan by AbuBakr & Chorus

Mai Shaheed Hoon Mai Zinda hoon by Faisal

Jiyo Pakistan by Rumz Band

Pakistan di Dharti noon by Manzoor Mirza

Hum Jeeten ge Pakistan by Zaib Rajput

Ik Naya Hoga Pakistan by Think Band

Zindabad by Shehzad Roy

Tu Mera Pakistan by Yasir Zoraiz

We love Pakistan ( Cover Nite People ) by Tauseef Adnan

Har Pakistani ka Nara La Ilaha Illallah by Shoaib

Hum Aik hain by Danish & Usman

Yaarian by Ali Zafar & Atif Aslam

Khaak jo Khoon mai  ( ISPR )




Wednesday, October 5, 2016

Azb ki Zarb by Arif Ansari & Wahab Khan -Poet Absar Ahmed ( 1st Patriotic Song Where Mentioned the Name of Gen.Raheel Shareef )


( 1st Patriotic Song Where Mentioned the Name of Gen.Raheel Shareef )

Hum Tere Mujahid Shah-e-Arab(SawW)
Tere Naam Hi se hai, Yeh Apna Sabab
Yeh Azb ki hai Zarb , Dushman pe Ghazab
Tere Naam hi se hai Yeh Apna Sabab
Moun Mor Diya Kohsaaron ka
Rakha hai Bharam Chanaaron ka
In Azmat ke Minaaron ka
In Masjid aur Darbaaron ka
Aye Pak Watan Tera Dil mai Adab 
Yeh Azb ki hai Zarb , Dushman pe Ghazab
Islam ka Parcham Hath Apne
Hai Tegh-e-Nabi(SawW) bhi Sath Apne
Raheel sa Apna Rehbar hai
Yeh Arz-e-Muqaddas Mehwar hai
Aye Adu-e-Watan Bach na Paye ga Ab
Yeh Azb ki hai Zarb , Dushman pe Ghazab
Yeh Pak Watan Azad Rahe
Tera Nagar Nagar Abad rahe
Tera har Dushman Barbaad Rahe
Tera Har Farzand Faulad rahe
Tujh par Qaayen Rahe Rehmat-e-Rab
Yeh Azb ki hai Zarb , Dushman pe Ghazab
Aye Ahl-e-Watan Na hona Udaas
Hum Barhtay rahen liye Haathon mai Raas
Is Zarb se hua hai Dushman Faash
Hum Amn ke Safeer Hamen Amn ki Talaash
Is Amn ke liye Apni Chhab Dhub
Yeh Azb ki hai Zarb , Dushman pe Ghazab
Hum Tere Mujahid Shah-e-Arab(SawW)
Tere Naam Hi se hai, Yeh Apna Sabab
Yeh Azb ki hai Zarb , Dushman pe Ghazab
Tere Naam hi se hai Yeh Apna Sabab
Yeh Azb ki hai Zarb , Dushman pe Ghazab


Singers : Arif Ansari , Wahab Khan , Mazhar Tufail & Fateh Ali Khan
Poet : Absar Ahmed
Music : Ghulam Abbas
Recording Engineers : Mushtaq Ahmed, Safdar Abbas
Producer : Atiya Amir
Executive Producer : Bushra Noor Khwaja
Central Production Unit Radio Pakistan Karachi.


Mere Watan Yeh Aqeedaten by Little Boy ( Lyrics & Download )


Mere Watan Yeh Aqeedaten 
Aur Pyar Tujh pe Nisar kar doon
Mere Watan Yeh Aqeedaten 
Aur Pyar Tujh pe Nisar kar doon
Mohabatton ke Yeh Silsilay
Be Shumaar Tujh pe Nisar kar doon
Mere Watan Mere Bus mai ho to
Teri Hifazat karoon Mai Aise
Khizaan se Tujh ko Bacha ke rakhoon
Bahaar Tujh pe Nisar kar doon
Teri Mohabbat mai Maut Aaye
To Is se barh kar Nahi hai Khwahish
Yeh Aik Ja'n kia Hazaar hon to
Hazaar Tujh pe Nisar kar doon
Mere Watan Yeh Aqeedaten 
Aur Pyar Tujh pe Nisar kar doon
Mohabatton ke Yeh Silsilay
Be Shumaar Tujh pe Nisar kar doon
Mere Watan..........Mere Watan


Singer        : Hammad Ali ( Little Boy )
Lyrics        : Munshi Manzoor

Released   : 2016
An ISPR Presentations

Mere Watan Yeh Aqeedaten by Hammad Ali ( Little Boy ) MP3 Free Download - Click Here 






Thursday, December 24, 2015

Mujhe Dushman Ke Bacchon Ko Parhana Hai ( New ISPR Song by Lt.Col.Imran Raza )




Qalam ki Jo Jaga thi Woh Waheen hai
Par Uska Naam Tak Baqi Nahi hai
Qalam ki Nok pe Nukta hai Koi
Jo Such hai Woh Bhala Rukta hai Koi
Woh jis Bachpan ne Thora aur Jeena tha
Woh Jis ne Maa'n Tumhara Khwab Chheena tha
Mujhe Maa'n Us se Badla lene jana hai
Mujhe Dushman ke Bachon ko Parhana hai
Mujhe Dushman ke Bachon ko Parhana hai
Woh kis ko Soch ke Soti nahi Maa'n
Kitaaben Dekh kar Roti rahi Maa'n
Woh kis ki Wapsi ki Raah Taktay
Woh Darwaza Baba Khula kion Rakhte
Woh Jo Saari hi Nazron se Gira tha
Na tha Insa'n na Jiska Khuda tha
Mujhe Maa'n Us se Badla lene jana hai
Mujhe Dushman ke Bachon ko Parhana hai
Mujhe Dushman ke Bachon ko Parhana hai
Jo Dar ke Samnay Hansta gya hai
Jo Apna Chhor ke Basta gya hai
Ke Ik aisi Kahani Likh gaya Woh
Kitaabon mai Nishani Rakh gaya Woh
Woh Maa'n ko Choomnay wala Lahoo tha
Woh Jis ne Khwaab ko bhi Khoo'n kiya tha
Mujhe Maa'n Us se Badla lene jana hai
Mujhe Dushman ke Bachon ko Parhana hai
Mujhe Dushman ke Bachon ko Parhana hai
Mujhe Dushman ke Bachon ko Parhana hai
Mujhe Dushman ke Bachon ko Parhana hai


ISPR Presents
Lyrics    : Lt.Col.Imran Raza
Released : 14 Dec 2015
First Anniversary of Tragedy of Peshawar