Search Patriotic Song,Singer,Poet in This Blog.
Sunday, December 31, 2023
قائدِ اعظم کو نغماتی خراجِ تحسین۔ ابصار احمد
"قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو نغماتی خراجِ تحسین"
تحریر و تحقیق : ابصار احمد
اگر یہ کہا جائے کہ موسیقی سے آراستہ ہمارے ملٌی نغموں کا آغاز کلامِ اقبالؒ کے بعد بانی ء پاکستان قائدِ محمد علی جناحؒ پر بنائے گئے نغمات سے ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ملٌی کلامِ اقبالؒ جو بطور "قومی نغمہ" بھی گراموفون کمپنیوں نے جاری کیے اس کے بعد قائدِ اعظمؒ ہی کی شخصیت تھی جس کی بناء پر مسلمانانِ ہند کے لیے نغمہ طرازی ہوتی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے وقت گراموفون ریکارڈ اور ریڈیو کے ذریعے موسیقی اپنے عروج پر تھی اسی لیے برطانیہ نے "وار پبلسٹی" کے نام سے جنگی ترانوں کا شعبہ بھی قائم کر رکھا تھا جس میں نامی و گرامی شعراء اپنا نام واضح کیے بناء خدمات انجام دے رہے تھے۔ ماہرین نفیسات کے مطابق موسیقی اور نغموں کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں جس کا اظہار ہم اپنی زندگی میں بھی کرسکتے ہیں کہ کوئی گانا جو ہم نے عمر کے کسی حصے میں بھی سنا ہو وہ اگر سن لیں تو ہم اسی دور میں پہنچ جاتے ہیں جس کے لیے الفاظ نہیں بس احساس ہوتے ہیں پھر اگر کوئی نغمہ اپنی شاعری میں گہرائی رکھتا ہو تو وہ بہت جلد کسی بھی انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ جنگوں سے لے کر سیاسی جماعتوں اور نظریوں کی تشہیر اور ان بیانیے کے فروغ میں نغموں کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اسی لیے جب برطانوی ہند کے لیے نغمے تیار ہو رہے تھے تو 1942ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی خصوصی نغمے بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ عوام میں نظریہ ء پاکستان کی تشہیر کی جاسکے مگر آل انڈیا مسلم لیگ اس معاملے میں اتنی پاکیزہ سوچ کی حامل تھی کہ اس کی جانب سے کچھ شرائط تھیں جن میں اہم شرط ان نغموں کو گانے والے فنکاروں نے برطانوی ہند کی مدح سرائی نہ کی ہو شامل تھی اس لیے کئی نامور فنکار اس سے دور ہی ہوگئے۔ اس وقت برطانوی ہند کے ساتھ ساتھ سبھاش چندر بوس کی آزادی ء ہند فوج اور کانگریس کے ترانے بھی منظرِ عام پر آ رہے تھے جبکہ مسلمانوں میں رفیق غزنوی اور امراء ضیاء بیگم کے گائے گئے کلامِ اقبالؒ ہی بطور ملٌی نغمہ تصور کیے جاتے ہاں چند اسلامی نظمیں اور سبق آموز واقعات پر مبنی قوالیاں ضرور تھیں جو مسلم قوم میں مقبول تھیں جن کو مختلف فنکاروں نے گراموفون کمپنیوں نے ریکارڈ کروایا تھا جن میں بنگال کے شاعرِ اسلام قاضی نذرالاسلام اور مولانا الطاف حسین حالی کا کلام اہم تھے۔ مگر اب پاکستان کے لیے باضابطہ نغموں کا آغاز ہوا چاہتا تھا تو اس ضمن میں لاہور ریڈیو کے میوزک پروڈیوسر قادر فریدی نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اس منصوبے کو خود لیا اور اپنی نگرانی میں ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں میاں بشیر احمد کی قائدِ اعظمؒ کو خراجِ تحسین پیش کرتی دو نظمیں "ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ" اور "ملت ہے فوج، فوج کا سردار ہے جناحؒ" ریکارڈ کروائیں جن کو ہز ماسٹرز وائس نے جاری کیا۔ اس طرح پاکستان کے لیے باضابطہ ملٌی نغموں کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد لاہور کے ممتاز فنکار اور سائیں اختر حسین کے بڑے بھائی ماسٹر اعجاز علی نے نازش رضوی کا تحریر کردہ نغمہ "ملت کا افتخار محمد علی جناحؒ" بھی ریکارڈ کروایا جو تحریکِ پاکستان کے زمانے میں ایک اہم نغمہ تھا۔ آغا حیدر نامی پشاور کے فنکار نے "اے جناحؒ اے دیدہ ور تجھ پہ خدا کی رحمتیں" اور ماسٹر ممتاز دہلوی نے "ظلمت میں آفتاب محمد علی جناحؒ، تاروں میں ماہتاب محمد علی جناحؒ" ریکارڈ کروائے جو بانی ء پاکستان کو قیامِ پاکستان سے قبل بہترین نغماتی خراجِ تحسین تھے ۔
14 اور 15 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہوا تو اسی دن لاہور ریڈیو سے عبدالعزیز سیالکوٹی نے صحرائی گورداسپوری کا تحریر کردہ جو نغمہ پیش کیا اس میں قائدِ اعظمؒ کا ذکر ان الفاظ میں شامل تھا :
" قائد اعظم توں میں اپنی جندڑی گول گھماواں
دن دیہاڑے ملی آزادی دل وچ خوشیاں مناواں "
پشاور ریڈیو پر احمد ندیم قاسمی نے جو تین نغمے لکھے ان میں ایک نغمہ قائدِاعظمؒ پر بھی تھا جسے پشاورا خان، سجاد سرور نیازی اور ساتھیوں نے گایا۔ اس طرح قائدِ اعظمؒ محمد علی جناحؒ پر نغموں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ابتدائی دور میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ملٌی نغموں میں کلامِ اقبالؒ کے علاوہ جو متن زیادہ واضح تھے وہ قائدِ اعظمؒ کو خراجِ تحسین پر مبنی نغمے ہی تھے جس میں تمام شعراء اور فنکار اپنے اس عظیم محسن کے احسان کو یاد کرکے ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے۔
اسی دوران نسیم اختر اور حافظ عطاء محمد قوال نے فیاض ہاشمی کے تحریر کردہ دو نغمے "تو مردِ مجاہد ہے تجھے مان گئے ہم، اے قائدِ اعظمؒ" اور "نچھاور تم پہ جان و دل ہمارے قائدِ اعظم" بھی ریڈیو پاکستان لاہور سے پیش کیے جو گراموفون ڈسک پر بھی جاری ہوئے۔
پاکستان مسلم دنیا کی ایک نظریاتی مملکت کے طور پر وجود میں آیا اسی جذبے کے تحت کسی غیر ملکی زبان میں پاکستان کے لیے پہلا ملٌی نغمہ مشرقی افریقہ کے مسلمانوں نے سواحلی زبان میں "ای بابائے پاکستان" بنایا جس کی 78 کی رفتار والی گراموفون ڈسک بھی جاری ہوئی۔ یہ نغمہ قائدِ اعظمؒ کی وفات پر ان کو خراجِ تحسین تھا۔
11 ستمبر 1948ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ قوم کی کشتی پار لگا کر ابدی نیند سو گئے تو اسی دن کراچی ریڈیو سے شیر محمد اور لاہور ریڈیو سے عبدالشکور بیدل نے تنویر نقوی کا تحریر کردہ خصوصی مرثیہ " السلام اے قائدِ اعظمؒ سلام " بھی پیش کیا جبکہ ناصر جہاں نے " محمد اور علی مل کے اک نام ہوگیا" بھی پیش کی جسے ارم لکنھوی نے تحریر کیا تھا۔
25 دسمبر 1948ء کو پہلا یومِ قائدِ اعظمؒ تھا جب قائدِ اعظمؒ قوم میں نہیں تھے اس لیے اس موقع پر فیاض ہاشمی کے تحریر کردہ خصوصی نغمے ریڈیو پاکستان نے تیار کرکے قوم کو حوصلہ مندی کا پیغام دیا جن میں منور سلطانہ نے آ "اللہ اللہﷻ حوصلہ اے قائدِ اعظم ترا" لاہور ریڈیو سے 6 بار براہِ راست سنایا اور بعد میں منور سلطانہ کے علاوہ اسے ستارہ بیگم کی آواز میں گراموفون ریکارڈ پر بھی جاری کیا گیا۔ جس میں قائدِ اعظمؒ کی وفات پر مبنی ان اشعار نے جگر چیر کر رکھ دیے :
" ہم نہیں کہتے کہ بے وفائی تو نے کی
لیکن وقت سے بھی پہلے جدائی تو نے کی
عالمِ اسلام میں آج ہے ماتم ترا"
14 اگست 1949ء کو قائدِ اعظمؒ کے بغیر پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر منور سلطانہ، علی بخش ظہور، حسینہ فیاض اور ساتھیوں نے فیاض ہاشمی کا تحریر کردہ نغمہ "قائدِ اعظمؒ زندہ ہے" لاہور ریڈیو سے پورے پاکستان کو سنایا جس میں اہلِ پاکستان کی طرف سے روحِ قائد سے یہ وعدہ بھی شامل تھا :
" جنت یہ زمیں بن جائے گی
ہر سالگرہ آزادی کی یہ کہتے ہوئے اب آئے گی
قائدِ اعظمؒ زندہ ہے ہاں زندہ ہے"
کراچی ریڈیو پر احمد ندیم قاسمی کا تحریر کردہ نغمہ "بحرِ ہستی میں اسلام کی لہر تھا، قائدِ ہند کیا قائدِ دہر تھا" مختلف فنکاروں نے گایا جبکہ لاہور ریڈیو سے زینت بیگم اور حافظ محمد عطاء کی مشترکہ آوازوں میں طفیل ہشیارپوری کا تحریر کردہ نغمہ "تو نے ہم کو جذبہء ایماں عطاء کیا" 1950ء کی دہائی کی ابتداء میں ریکارڈ ہوئے۔ تاہم قائدِ اعظمؒ پر سب سے مقبول ترین ملٌی نغمہ فلم بیداری میں شامل فیاض ہاشمی مرحوم کا تحریر کردہ وہ ملٌی نغمہ ہے جسے سن کر آج بھی ہر دل میں جہاں قائدِ اعظم سے عقیدت پیدا ہوتی ہے وہاں آخری انترا سن کر آنکھیں بھی اشک بار ہوجاتی ہیں اور یہ نغمہ آج بھی مختلف فنکار گا کر اپنے قائدؒ کو خراجِ تحسین ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :
" یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظمؒ تیرا احسان ہے احسان"
کچھ عرصے سے ایک بغضِ پاکستان رکھنے والا یا بھارت سے مرعوب اور پاکستان سے لاشعوری طور نفرت کرنے والا یا پھر فیشن کے طور پر "اٹینشن سیکر" طبقہ اسے بھارتی فلمک گیت کا "چربہ" قرار دے کر اس پر "پابندی" کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ اس کا جواب فیاض ہاشمی خود دے چکے ہیں بلکہ یہ طبقہ اپنی بات منوانے کے لیے اس حد تک گرتا ہے کہ اسے ملٌی شاعری کے باوجود "ملٌی نغمہ" ماننے سے بھی انکاری ہے اور ایک فرد تو اب مجھ سے ذاتی بغض میں ہر قومی تہوار کے موقع پر اپنی فیس بک وال سیاہ کرتے ہوئے اس پر " سرکاری پابندی کا مطالبہ" کرتے ہوئے بھی چیختے دکھائی دیتے ہیں جن کے خود ساختہ "سند یافتہ محقق" بھی آپ کو اول جلول باتوں کے ساتھ دکھائی دیں گے۔ ان کے سرخیل اور پی ٹی وی پر پاکستانی موسیقی پر پروگرام کرنے کے باوجود بھی "بھارت ہمدرد محقق" کراچی سے اس سال سفرِ آخرت پر روانہ ہوچکے ہیں جبکہ لاہور میں بیٹھے صاحب اور ان کے ہم نوا سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر جب بھی یہ نغمہ سنتے یا دیکھتے ہیں تو تلملاتے ہیں مگر الحمدللہ صد الحمدللہ 1957ء سے لیکر آج تک قائدِ اعظمؒ پر یہ اثر انگیز نغمہ ہر اسکول اور تقاریب میں نشر ہوکر فیاض ہاشمی کے الفاظ میں قائدِ اعظمؒ کا احسان پوری قوم کو یاد دلا رہا ہے ۔۔!
1964ء میں ریڈیو پاکستان کی ٹرانسکرپشن سروس جو اب سینٹرل پروڈکشنز کہلاتی ہے ریڈیو پاکستان کا مضبوط شعبہ بن چکی تھی اس نے جہاں کئی ملٌی نغمےبریکارڈ کیے وہاں بانی ء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پر بھی دس نئے نغمات تیار کیے جن میں حمایت علی شاعر کا تحریر کردہ نغمہ "اے قائدِ اعظمؒ تو زندہ رہے گا پائندہ رہے گا" ، ترانہ ء پاکستان کے خالق ابوالاثر حفیظؔ جالندھری کا "کشتی میں تھا وہ عزم کا دریا لیے ہوئے" اور اطہر نفیس کا "اپنا وہ میرِ کارواں" بے حد مقبول ہوئے جنھیں کورس میں تاج ملتانی، کوکب جہاں، زوار حسین اور خورشید بیگم نے پنڈت غلام قادر خاں اور استاد نتھو خاں کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا۔
ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران جب 11 ستمبر کا دن آیا تو اس دن ناصر کاظمی نے "آج تیری یادوں کا دن ہے" جیسا نغمہ لکھا جو بہت عرصے بعد مجاہد حسین کی موسیقی میں انور رفیع اور ساتھیوں نے سینٹرل پروڈکشن یونٹ لاہور جبکہ کراچی پر افشاں احمد نے نیاز احمد کی موسیقی میں گایا۔ افشاں احمد کی والدہ اسماء احمد کی آواز میں "میرے محبوب قائدؒ میرے محترم" بھی ریڈیو پاکستان کراچی کا ایک مقبول نغمہ ء قائد اعظمؒ ہے جو 1976ء کو قائدِ اعظمؒ کے صد سالہ جشن کے موقع پر ریکارڈ کیا گیا۔ جبکہ 1984ء میں ساقی فاروقی کا تحریر کردہ نغمہ "اک کرن مسکراتی ہوئی اک کرن جو دریچے سے نیچے اتر آئی تھی" ناہید اختر اور ساتھیوں نے استاد نذر حسین کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا۔
قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پر ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن نے بھی یادگار نغمات تیار کیے جن میں سجاد علی، بینجمن سسٹرز اور ساتھیوں کی آوازوں میں نثار بزمی کی موسیقی سے آراستہ محشر بدایونی کا تحریر کردہ نغمہ "اے روحِ قائدؒ آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں" آج بھی روزِ اول کی طرح مقبول ہے جو 1985ء کو پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز نے پیش کیا۔ قائد اعظمؒ کے صد سالہ جشن کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز نے تاج دار عادل کی پیشکش میں جمیل الدین عالیؔ مرحوم کا تحریر کردہ نغمہ "سننے والو! یاد کرو قائدِ اعظمؒ کی باتیں" محمد افراہیم اور ساتھیوں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا تو وہ اس سال سرکاری تقاریب کا نغمہ قرار پایا جس میں قائدؒ کے اقوال کو منظوم کیا گیا تھا ۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے مایہ ناز پروڈیوسر اور سابق جنرل منیجر اطہر وقار عظیم اپنی کتاب "ہم بھی وہاں موجود تھے" میں لکھتے ہیں کہ معروف شاعر کلیم عثمانی نے ایک دن انھیں فون کرکے بتایا کہ انھوں نے ایک ایسا نغمہ لکھا ہے جو قائدِ اعظمؒ کی طرف سے قوم کے نام کے ایک تمثیلی پیغام ہے کہ اگر قائدِ اعظمؒ زندہ ہوتے تو وہ قوم سے کیا فرماتے۔ اس کے لیے انھوں نے بجائے اپنے خیالات استعمال کرنے کے اقوالِِ قائدِ اعظمؒ سے ہی مدد لی ہے۔ کلیم عثمانی نے کہا کہ اس کی موسیقی نثار بزمی ہی ترتیب دیں گے اور اگر شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں اسے گائیں تو کیا ہی بات ہوگی۔ اطہر وقار عظیم نے نثار بزمی سے موسیقی مرتب کرواکر مہدی حسن خاں سے یہ نغمہ ریکارڈ کروایا تو اس طرح 23 مارچ 1978ء کو "یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے" جیسا نغمہ معرضِ وجود میں آیا۔۔!!
1985ء میں خلیل احمد کی موسیقی میں قائدِ اعظمؒ محمد علی جناحؒ پر 23 مارچ 1940ء کو میاں بشیر احمد کا پیش کیا گیا نغمہ "ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ" مسعود رانا کی آواز میں نشر کیا گیا تو اس نغمے نے اس کی تمام سابقہ طرزیں فرموش کروادیں ورنہ یہ نغمہ کئی فنکار مختلف طرزوں کے ساتھ گاچکے تھے مگر اب اس کی یہی طرز مستند مانی جاتی ہے۔ کچھ سال قبل پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے یوسف صلاح الدین کی موسیقی میں اسے راحت فتح علی خاں نے بھی ریکارڈ کروایا تھا جو اپنی موسیقی کے اعتبار سے ایک اچھا ملٌی شاہکار قرار پایا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز نے 2005ء میں تاج دار عادل کی پیشکش میں پروگرام "ملت کا پاسباں" پیش کیا جس میں مہناز بیگم، عارف انصاری، شبانہ کوثر و شازیہ کوثر ، عبدالوہاب خان اور سجاد یوسف نے شاندار نغمات پیش کیے جبکہ 2007ء سے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز کے موجودہ جنرل مینیجر امجد حسین شاہ تقریباً ہر سال یومِ قائدِ اعظمؒ پر خصوصی میوزیکل پروگرام پیش کر رہے ہیں جن میں قائدِ اعظمؒ پر مبنی ملٌی نغمات شامل ہوتے ہیں۔
اردو زبان کے علاوہ صوبائی اور علاقائی زبانوں میں بھی قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پر نڑی تعداد میں ملٌی نغمات ریکارڈ ہوئے جن میں سندھی زبان میں مخدوم طالب المولیٰ کا تحریر کردہ "السلام اے قائدِ اعظمؒ وطن جا پاسباں" اور شمشیر الحیدری کا لکھا ہوا "سلام اے قائدِ اعظمؒ" ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے ماسٹر محمد ابراہیم، روبیمہ قریشی، استاد محمد جمن اور ساتھیوں کی آوازوں میں 1976ء میں ریکارڈ کیے۔ بلوچی زبان میں عطاء شاد کے تحریر کردہ نغمات فیض محمد بلوچ اور مرید بلیدی نے گائے اپشتو میں سلیم لاجورد، سمندر خان سمندر اور عبدالرحمٰن مجذوب جیسے شعراء نے لکھا جنھیں گانے والوں میں سبز علی، ہدایت اللہ، کشور سلطان اور گلنار بیگم کے نام اہم ہیں۔ معروف پشتو گلوکارہ وغمہ نے بھی 2007ء میں قائدِ اعظمؒ پر خصوصی نغمے ریڈیو پاکستان پشاور پر ریکارڈ کروائے جو حال ہی میں انتقال فرمانے والے ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر لائق زادہ لائق نے تحریر کیے تھے۔ کچھ برس قبل معروف پشتو فنکارہ نازیہ اقبال کی آواز میں "اے قائدِ اعظمؒ تیرا حسان ہے احسان" کا پشتو سازینوں کے ساتھ اردو طرز میں پشتو ترجمہ اے وی ٹی خیبر نے تیار کیا ہے جو ہر سال 25 دسمبر کو اے وی ٹی کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی خیبر پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پنجابی زبان میں اسمعٰیل متوالا، ڈاکٹر رشید انور، صحرائی گوراسپوری اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم جیسے شعراء نے قائدِ اعظمؒ کے حضور نذرانے تحریر کیے جبکہ جنوبی پنجاب کی زبان سرائیکی میں بابائے سرائیکی عبدالحق مہر، عبداللطیف بھٹی، حبیب فائق جیسے شاعروں نے ملتان اور بہاولپور ریڈیو کے لیے نغماتِ قائدِ اعظمؒ لکھے جنھیں گانے والوں میں ثریا ملتانیکر، سلیم گردیزی، جمیل پروانہ نصیر مستانہ، بیگم نسیم اختر، شمشاد بانو، سجاد رسول اور اے ڈی ساغر جیسے فنکار شامل ہیں۔
مشرقی پاکستان میں بھی قائدِ اعظمؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے بیش بہا نغمے تیار ہوئے جن میں کوی جسیم الدین کا تحریر کردہ نغمہ عبدالعلیم اور ساتھیوں کی آوازوں میں "قائدِ اعظمؒ امار مہان نیتا" اور کوی عبدالوہاب الکمال کا لکھا ہوا نغمہ " امار بندھو قائدِ اعظمؒ" جسے دل آراء ہاشم اور ساتھیوں نے گایا بے حد مقبول تھے جبکہ عباس الدین احمد نے بھی بنگلہ زبان میں قائدِ اعظمؒ کو مسیح العالم کا لکھا ہوا نغمہ گا کر خراجِ تحسین پیش کیا۔
بانیء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ پر گائے گئے ملٌْی نغموں کا یہ صرف سرسری تعارف تھا جس میں اس موضوع پر کئی اہم ملٌی نغمات کا ذکر نہیں ہوسکا۔ اس موضوع پر میری کتاب "ْہر تان پاکستان" میں تفصیلات مل جائیں گی جبکہ نغماتِ قائدِ اعظمؒ پر مکمل کتاب بھی مکمل کرچکا ہوں جو ان شاء اللہ جلد زیورِ طباعت سے آراستہ ہوجائے گی۔ اس کتاب میں قائدِ اعظمؒ پر موسیقی میں بنائے گئے تمام نغموں کی نہ صرف تفصیلات شامل ہیں بلکہ نغموں کا مکمل متن بھی درج ہے۔ ان شاء اللہ یہ کتاب ملٌی نغموں کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگی۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment