Search Patriotic Song,Singer,Poet in This Blog.

Sunday, June 23, 2024

تاج ملتانی قومی نغموں کا ایک عہد ۔ تحریر ابصار احمد ۔ Taj Multani Patriotic Songs

ملی نغموں کا تاج وَر ۔۔ تاج ملتانی ! تحریر : ابصار احمد 22 جون 2018ء یومِ وفات تاج ملتانی مرحوم ہماری فنِ موسیقی شخصیت ہی نہیں بلکہ تاریخِ ملٌی کا بھی ایک اہم باب تھے۔ ممکن ہے کہ بہت سے احباب اور بالخصوص میرے ہم عمر افراد ان کے نام سے واقف تک نہ ہوں لیکن "اپنی قوت اپنی جان" اور "جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی" جیسے بلند پایہ ملی نغمے سب نے ہی سن رکھے ہیں جن کے گلوکار تاج ملتانی ہی تھے ۔ 2011ء میں ملی نغموں کی جمع آوری کے ساتھ ساتھ جب ملی نغموں پر تحقیق کا ڈول ڈالا تو اس وقت یہی بات عام تھی کہ سب سے زیادہ ملی نغمے ملکہ ترنم نورجہاں نے گا رکھے ہیں جبکہ نئی نسل کے لیے یہ اعزاز رکھنے والی شخصیت جنید جمشید یا اسٹرنگز بینڈ کی تھی ۔ ایک انٹرویو میں غلام عباس سے سنا کہ سب سے زیادہ ملی نغمے گانے کا اعزاز ان کو ہی حاصل ہے جس پر ان سے رابطہ کرکے تفصیلات پوچھیں تو وہ بھی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے ۔ اس دوران ملی نغموں کی تلاش میں نکلا تو تاج ملتانی کے بے شمار ملی نغمے نظر آئے پھر ریڈیو پاکستان کی دستاویزات دیکھیں تو تاج ملتانی غلام عباس سے کہیں آگے تھے ۔۔۔! تحقیق کی اس جستجو نے پاکستان ٹیلی ویژن کا راستہ بھی دکھایا جہاں غلام عباس کے ملی نغموں کا جائزہ لیا پھر نجی اداروں کے ملی نغمات بھی کھنگالے ان سب کے باجود تاج ملتانی تعداد میں بدستور سرفہرست رہے ! حالانکہ اس وقت تاج صاحب کے بے شمار ملی نغمے میری دسترس میں نہیں تھے اور نہ ریڈیو پاکستان کراچی کے پاس اتنی بڑی تعداد تھی لیکن آہنگ کی فائلز اور ریڈیو پاکستان کی تحریری دستاویزات ثبوت کے لیے کافی تھیں اسی لیے حتمی طور پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ تاج ملتانی ہی پاکستان کے لیے یہ ملی اعزاز رکھنے والے فنکار ہیں۔ تاج صاحب سے آرٹس کونسل وغیرہ میں ملاقات رہتی تھیں لیکن اس اعزاز پر ان کی صاحبزادی ثناء علی کو فون کیا تو انھوں نے تاج صاحب سے بات کروائی جنھوں نے نہایت شفقت سے اگلے دن گھر مدعو کیا ۔ تاج ملتانی کا گھر ہماری رہائش سے کچھ ہی فاصلے پر تھا جہاں وہ نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ حالات کی ستم ظریفی تھی کہ "یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے" جیسا مقبول ملی نغمہ گانے والا فرد اب عوام کی نگاہوں بلکہ یادداشتوں سے بھی اوجھل تھا سوائے آرٹس کونسل جہاں سربراہ محمد احمد شاہ صاحب ہی ان کے قدردان تھے۔ جبکہ دنیائے موسیقی ان کو تقریباً فراموش کرچکی تھی حالانکہ تاج ملتانی کلاسیکل گائیکی میں استاد سلامت علی نزاکت علی جیسے معتبر گائیکوں کے شاگرد تھے ۔ تاج صاحب نہایت منکسر المزاج فنکار تھے جو کسی بھی شعبے کے بڑے فنکار کی پہچان ہوتی ہے ۔ اُس ملاقات کے بعد اکثر ان کا فون آجاتا اور دیر تک ملی نغموں کے حوالے سے باتیں ہوتیں اور میں ان کو ان کے گم گشتہ ملی نغمات یاد دلواتا ۔ ایک دن انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایک فلم کے لیے بھی ملی نغمہ ریکارڈ کروایا تھا لیکن وہ اب ناپید ہے کیونکہ فلم ہی ریلیز نہ ہوسکی تھی ہاں ریڈیو پر ایک عرصے تک وہ نشر ہوتا رہا جو یقیناً اب ریڈیو کے پاس بھی نہیں ہے ۔ اس کی طرز ان کو اچھی طرح یاد تھی جو انھوں نے سنائی تو دل ڈوب سا گیا کہ اتنا شاندار ملی نغمہ میرے پاس کیونکر نہیں ہے ۔ ابھی اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ کراچی کے مقامی اتوار بازار میں گراموفون ریکارڈ کی ایک ڈھیری نظر آئی۔ ان بازاروں میں جانے مقصد ہی ملی نغموں کی تلاش آوری ہوتی ہے اسی لیے اس ڈھیری میں ملی نغمے تلاش کرنے لگا ۔ اچانک میری آنکھوں نے یقین کتنا بند کردیا کہ 45 آر پی ایم کا ایک وائنل ریکارڈ جس پر فلم کا نام "بڑھے چلو" درج تھا اس میں وہی نغمہ موجود تھا ۔۔۔!! قیمت پوچھی تو ڈھیری والے نے 20 روپے بتائی وہاں شہر کے کباڑیے جو اب گراموفون کلیکٹر بھی کہلاتے ہیں اور ان ڈھیریوں سے سامان لیکر مہنگے داموں بیچتے ہیں ان کا بھی رش تھا اسی لیے میں نے ملی نغموں کے جتنے ریکارڈ نکال لیے تھے ان سب کی قیمت ادا کی کیونکہ ان کباڑیوں کے نزدیک یہ "ان ریلیز" فلم تھی تو اس کا ریکارڈ بھی مہنگا اور نایاب بکتا ہے تو ہوسکتا تھا کہ میرے ہاتھ میں وہ ریکارڈ دیکھ کر ڈھیری والے کے ذریعے وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے کیونکہ وہ لوگ تو اس کے مستقل گاہگ تھے جبکہ میں اپنے شوق کے لیے صرف ملی نغمے ہی یکجا کرتا ۔ جلدی جلدی ریکارڈ گھر لے کر آیا اور اسے اپنی ٹرن ٹیبل پر کئی بار سنا تو اس نغمے میں دو انکشافات ہوئے ۔۔۔ ایک تو یہ کہ پرویز مشرف کا نعرہ "سب سے پہلے پاکستان" اس نغمے میں جزوی طور پر شامل تھا اور دوسرا یہ کہ اس نغمے میں پاکستان میں بسنے والی سب سے زیادہ قومیتوں کا ذکر بھی شامل تھا جو ہنوز ملی نغموں میں باقی ہے ۔ نغمے کے بول اس طرح تھے : " ہم بلوچ پنجابی سندھی بنگالی مکرانی ہیں سب کچھ ہیں ہم دنیا والو! پہلے پاکستانی ہیں ہم پٹھان ہزارہ میمن بوہرے آغا خانی ہیں سب کچھ ہیں ہم دنیا والو! پہلے پاکستانی ہیں" نغمہ سننے کے بعد تاج صاحب کو فون کیا تو انھیں بھی یقین نہیں آرہا تھا اسی لیے فون قریب کرکے ریکارڈ پلیئر پر سوئی رکھی تو فرط جذبات سے ان کی بھی واہ واہ کی صدائیں دیر تک آتی رہیں ۔ مگر کمال بات یہ تھی کہ تاج صاحب جو فون پر بات کرتے ہوئے خوشی سے انتہائی جذباتی ہو کر مسلسل دعائیں دے رہے تھے انھوں نے ایک بار بھی اس نغمے کو طلب نہیں کیا۔۔! میں یہ نغمہ سی ڈی پر منتقل کر ان کے گھر جاپہنچا اور سی ڈی نذر کی تو اس وقت ان کی حالت ایسی تھی جیسے کسی کو اپنا برسوں کھویا ہوا بچہ مل چکا ہو۔ کہنے لگے "بیٹا! تم نے مجھے دوبارہ زندہ کردیا ہے" اور کہا کہ انھیں اس بات کی را بھی امید نہیں تھی کہ یہ نغمہ ان کے سپرد کردوں گا۔۔! تاج صاحب کے اس ملی کارنامے کو منظر عام پر لانے کے لیے اب مجھ پہ بطور محقق ذمہ داری تھی کہ تاج صاحب کا یہ قومی اعزاز قومی سطح پر منواؤں ۔ گو کہ چند ایک ملی نغموں کی وجہ سے اکثر میڈیا اور بالخصوص ریڈیو سے وابستہ افراد ان کے کارناموں سے واقف تھے لیکن یہ اعزاز بہرحال نہیں جانتے تھے۔ اس لیے سب سے پہلے ان دنوں چینل 24 سے وابستہ اپنے دوست اور معروف صحافی واجد رضا اصفہانی بھائی کو بتایا تو انھوں نے کراچی پریس کلب میں ان پر خصوصی رپورٹ بنائی جس میں مجھے بھی بطور محقق شامل کیا۔ پھر ریڈیو پاکستان اور دیگر نجی ایف ایم چینل پر مدعو مجھے کیا جاتا تو تاج صاحب اور سلیم رضا کا ذکر لازمی کرتا کہ ملی نغموں کے لیے یہ قومی اعزاز رکھنے والی شخصیات تاحال سرکاری اعزاز سے محروم ہیں ۔ اگست 2017ء میں سینٹرل پروڈکشن یونٹ کے لیے جب مسودے اور نغمے تحریر کر رہا تھا تو ریڈیو پاکستان سے ایک مختصر پروگرام یا فلر "زندہ روایات" تفویض ہوا جس میں تاج ملتانی کا نام بھی شامل تھا ۔ یہ پروگرام لکھ کر ریکارڈ کروادیا جو سینٹرل پروڈکشن کی نگراں بشریٰ نور خواجہ نے فوراً ہی ہیڈکوارٹر بھجوادیا اور اسی دن ریڈیو پر نشر بھی ہونے لگا جس میں آخری جملہ تھا "تاہم ریڈیو پاکستان کراچی کے یہ لیونگ لیجنڈ تاحال سرکاری اعزاز سے محروم ہیں جن پر توجہ دینا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے" فلر بارہا نشر ہوا جس کے بعد اگلے دن ہی وزارت سے فون آیا کہ ان کے کوائف بھیجے جائیں ۔ بشریٰ باجی نے کہا کہ اگر اس اعزاز پر اعتراض ہوا تو ؟ میں نے کہا آپ بے فکر رہیں بلکہ میرے پاس ثبوت ہیں جس کے بغیر بات کرنا مناسب نہیں اس پر ببشریٰ باجی نے کہا کہ کچھ دنوں مجھے فہرست مہیا کردینا ۔ "باجی! کچھ دن کیا مجھے ابھی کاغذ دیں ابھی لکھ دیتا ہوں " تھوڑی دیر میں فہرست بشری باجی کی میز پر تھی جس پر پہلے ہی کہہ دیا کہ یہ وہ نغمے ہیں جن کی ریکارڈنگ میرے پاس ہیں اب مزید کچھ نکل آئیں تو میں ذمہ دار نہیں" بشریٰ باجی فہرست پلٹ پلٹ کر دیکھتی رہیں اور وہ فہرست فوراً وزارت میں ای میل کروادی ۔ یہاں تک ہمارا کام تھا جو مکمل ہوا اب آگے سینٹرل پروڈکشنز میں محترم حافظ محمد نوراللہ صاحب جیسی شخصیت موجود تھیں جنھوں نے سپاس نامہ تیار کرواکے آگے پہنچوایا جہاں یہ کمیٹی تک گیا جس میں خوش قسمتی سے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ صاحب بھی موجود تھے جنھوں نے صدرِ پاکستان سے تاج ملتانی کے لیے "پرائیڈ آف پرفارمنس" منظور کروالیا اس طرح ایک حقیقی فنکار کو اس کا دیر سے سہی لیکن زندگی میں ہی مل گیا ۔ 23 مارچ 2018ء کو تاج ملتانی صاحب نے فون کرکے بتایا کہ آج وہ گورنر سندھ سے اپنا اعزاز وصول کریں گے جس کے لیے وہ کلیدی کردار میرا ہی سمجھتے ہیں اس لیے وہ اپنے صاحبزادے کی بجائے مجھے لے ساتھ جانا چاہتے ہیں جس پر ان سے معذرت کی کہ یہ آپ کا حق تھا جو آپ کو ملا ہے بلکہ یہ بہت پہلے ہی ملنا چاہیے تھا ۔ اور یہ اعزاز یقیناً آپ کے اہلِ خانہ کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ایوارڈ لینے کے بعد اگلے دن مجھے فون کرکے گھر بلوایا اور شاندار ضیافت کی اس دن تاج صاحب کو دیکھا جو کچھ ہی ماہ میں بہت کمزور ہوچکے تھے بلکہ پہچانے بھی نہ جا رہے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں خبر ملی کہ تاج صاحب علیل ہیں ۔ فون پر بھی بات مشکل سے ہونے لگی یہاں تک کہ آج کے دن جب عید الفطر کو گزرے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ تاج صاحب کی صاحبزادی ثناء باجی کی فون سے چیختی ہوئی آواز ابھری "ابصار! ابو چلے گئے۔۔۔!" بس ایک سناٹا تھا کیونکہ ملی نغموں کا ایک عہد ختم ہوچکا تھا اور میرے ذہن میں ان کی ملی تانیں گونج رہی تھیں ۔ اللہﷻ کامل۔مغفرت فرمائے ۔ آمین ثم آمین

No comments: