پاکستان کے سرکاری قومی ترانے کی گراموفون ڈسک کا اشتہار جو مؤرخہ 07 اگست 1955ء کو
ملکی اخبارات میں شائع ہوا۔ قومی ترانے کا اسٹینڈرڈ پلے ریکارڈ 78 RPM ریکارڈ 7
اگست 1955ء کو گراموفون کمپنی آف پاکستان نے ای ایم آئی کے تحت جاری کیا تاہم شاید
یہ سرکاری ترانہ تھا اسی لیے اس کی ڈسک میں شاعر، موسیقار اور فنکاروں کے نام یہاں
تک کہ ریکارڈ لیبل کا مونوگرام بھی درج نہیں ۔ ای ایم آئی کے ریکارڈ کے مطابق
ابتداء میں اس کی دو ہزار کاپیاں تیار کی گئیں جس کی ریکارڈنگ 10 اگست 1954ء کو
ریڈیو پاکستان کے تحت این جے وی اسکول کراچی میں ہوئی جہاں ریکارڈنگ کی ٹیکنیکل
سہولیات گراموفون کمپنی آف پاکستان جو بعد میں ای ایم آئی کہلائی نے فراہم کی تھیں
جس کے پاس اس وقت ریکارڈنگ کا بہترین اور بین الاقوامی معیار کا نظام تھا۔ زیڈ اے
بخاری اس کی نگرانی خود کر رہے تھے جبکہ ان کے ساتھ ریکارڈنگ کروانے والوں میں سید
ظفر حسین بھی تھے ۔ بخاری صاحب نے فنکاروں کا انتخاب کرتے ہوئے سب سے پہلے نجم آراء
کو منتخب کیا دیگر فنکاروں میں احمد رشدی، نسیمہ شاہین، شمیم بانو، کوکب جہاں،
تنویر جہاں ، زوار حسین، غلام دستگیر، رشیدہ بیگم اور اختر عباس شامل تھے۔ موسیقار
احمد جی چاگلہ کی وفات کے بعد انھی کے مرتب کردہ سازوں پر نہال عبداللہ اور مہدی
ظہیر نے اس کے نوٹس ترتیب دیے جس کا آرکسٹرا انگلینڈ سے تیار ہوکر آیا تھا ۔ اب
موسیقی کے نوٹس میں مشاورت کے لیے شاعر ابو الاثر حفیظ جالندھری خود بھی موجود تھے۔
ریکارڈنگ انجینئر کے فرائض ایم کلیم نے انجام دیے جو ان دنوں ریڈیو پاکستان سے بطور
ساؤنڈ انجینئر وابستہ تھے جبکہ آڈیو بیلنسنگ میں ڈپٹی ڈائریکٹر شعبہ ء انجنئرنگ
عبدالوہاب تھے ۔ اتفاق کہیے کہ ریکارڈنگ کے بعد ای ایم آئی کی اپنی میں ہلکا سا بال
آگیا تھا جس کی وجہ سے آواز میں "جمپ" آجاتا تو انھوں نے ریڈیو پاکستان کی ماسٹر
ڈسک سے ہی ترانہ کاپی کیا۔ اس کے بعد اس کی ترسیل کی ذمہ داری گراموفون کمپنی آف
پاکستان کے پاس ہی آئی جس نے اسے اسٹینڈرڈ پلے پر جاری کیا ۔ 1959ء میں ایم ایم آئی
نے اپنے اسٹوڈیو میں اسے انھی فنکاروں کے ساتھ انھی سازوں پر دوبارہ ریکارڈ کیا جسے
1962ء میں سنگل پلے یعنی 45 کی رفتار والے جدید گراموفون ریکارڈ پر بھی جاری کیا جو
ان دنوں اپنی پائیداری اور آواز کے بلند معیار کے سبب شائقینِ موسیقی میں تیزی سے
مقبول ہو رہے تھے ۔ ای ایم آئی نے 1970ء تک اس کی بیس ہزار کاپیاں فروخت کیں جو
سفارت خانوں کے ذریعے بیرونِ ملک بھی بھیجی گئیں بعد ازاں جب آڈیو کیسٹ کا دور آیا
تو سنگل پلے سے ہی حاصل کردہ ریکارڈنگ ملی نغموں کی کیسٹ میں آنے لگی تاہم 78 کی
رفتار والے صوتی اسطوان یعنی اسٹینڈرڈ پلے کی حیثیت اپنی جگہ مسلٌم رہی اور اس وقت
اس کا شمار انتہائی نایاب گراموفون ڈسک میں ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ اسٹینڈرڈ پلے اور
سنگل پلے دونوں گراموفون ریکارڈز میں ایک جانب قومی ترانہ اور دوسری جانب دھن ہے
جبکہ اسٹینڈرڈ پلے پر دھن والی جانب مختلف تقریبات کے لیے تیس سیکنڈ پر مشتمل
"مختصر دھن" بھی شامل ہے جو اس ڈسک کی پہلی اشاعت میں شامل کی گئی تھی۔ تحریر و
تحقیق : ابصار احمد ( محقق و آرکائیوسٹ ملٌی نغمات)
No comments:
Post a Comment